میں صرف اپنی ایک آنکھ سے دیکھ سکتا ہوں


میں صرف اپنی ایک آنکھ سے دیکھ سکتا ہوں مگر جو دیکھتا ہوں اذیت ناک ہی نہیں بلکہ خوفناک بھی ہے۔ اور آدھے سے زائد دماغ تو میرا تقریباً مفلوج ہی ہو چکا ہے۔ ڈر لگتا ہے مجھے اپنی شناخت بتاتے ہوئے۔ میں ایک ایشیائی یا ہندوستانی کیسے ہو سکتا ہوں کیونکہ یہاں آنے کے لیے میں نے تو عرب سے ہجرت کی۔ اور مجھ پر مسلط ”بڑوں“ کا بھی یہی خیال ہے کے تاریخی اعتبار سے خود کو ہندوستانی ثابت کرنا میرے قومی مفادات کے سخت خلاف ہے۔

اب اگر بد قسمتی سے میرے آباؤ اجداد کی ہڈیاں ہندوستانی مٹی ہی سے تخلیق شدہ ہیں تو مجھے چاہیے کے میں اُسے بھول جاؤں۔ مجھ پر لازم ہے کے میں اپنی تاریخ کا آغاز خطبہ اٰلہ باد پڑھ کر شروع کروں اور قرارداد لاہور کا نسخہ، تعویذ کی صورت پانی میں گھول کر پیوں۔ مزارِ قائد پر فاتحہ تو پڑھوں، مگر اس کے اردگرد جاری حرام کاریوں کو کھوٹے سکوں کی طرح بھلا ڈالوں۔ مینارِ پاکستان سے کوئی خودکشیاں کرے تو سُکھ کا سانس لوں کے چلو اب غربت کے خاتمے کا کام بھی یہی مینار انجام دینے لگا۔ باچا خان کا کوئی نام لیوا اُٹھے تو اُسے نمک حرام قرار دے کر خان عبدلقیوم خان کے حوالے کروں۔ بلاشبہ سرکاری طور پر یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قومی سلامتی تاریخی حقائق سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

میرے قومی یعنی سرکاری مفکرین کو اپنے قومی مفادات کی تشریح کرنے میں ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے لاڑکانہ، جاتی امراء جیسے کچھ خاندان ہیں اور چند مخصوص طرز کے سرکاری افسر، مگر یہ اُن کی کمالِ مہارت ہے کے آج تک قوم کو اُف کرنے کی بھی مہلت نہیں دِی۔

ویسے چند بزرگوں کا یہ بھی خیال ہے کے مجھے اپنے گناہوں کی غیر مشروط معافی مانگ کر اپنی داہنی آنکھ دوبارہ طلب کرنی چاہیے، چاہے دوسری کی قربانی ہی کیوں نا دینی پڑے۔ کیونکہ یہ دراصل میری بائیں آنکھ ہی کا مسئلہ ہے، جو مجھے یہ جنت نما معاشرہ، جہنم کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ میری آنکھ ہمیشہ دودھ اور شہد کی جگہ خون کی نہر دیکھتی ہے۔ مجھے قحط زدہ بھوکے ننگے تو نظر آتے ہیں مگر اُن کی خاطر بنے ہوئے سرکاری گودام میری یاداشت میں محفوظ نہیں رہتے۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کے ایک صحیح العقیدہ عالم سے مشورہ کیا تو انہوں نے مجھے سبز چشمے استعمال کرنے کا کہا مگر مجال ہے جو کوئی افاقہ ہو۔ آخر کچھ صاحبان علم جو مختلف اہلیانِ سیاست کے مشترکہ بھی استاد ہیں، انہوں نے ہماری اصلاح کی۔ جی ہاں اُن کا خیال تھا کہ طوطا چشمی اس مسئلے کا بہترین اور واحد علاج ہے۔ یہ علاج تاریخی حوالوں سے بھی ثابت ہے اور اخراجات کی بجائے آمدن بڑھنے کا بھی بھرپور امکان رکھتا ہے۔

ہمارے ہاں حکمران طبقے کے علاوہ بہت سے خودساختہ نوجوان لیڈر بھی اس کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کی اصلاح کا منجن تو بیچتے ہیں مگر ان کے خیالات سُن کر معلوم ہوتا ہے کے ان کی پیدائش ہی گھڑی دیکھنے کے لیے ہوئی ہے۔ جی ہاں گھڑی دیکھیں اور امام مہدی کا انتظار کریں۔ البتہ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ یہ بیانیہ کسی نوجوان نے نہیں بلکہ ہمارا خون نچوڑنے والے ان گروہوں نے ہی بنایا ہے جن کی ترقی ہماری تنزلی سے وابستہ ہے۔

ویسے میں اکثر یہ سوچ کر بھی پریشان رہتا ہوں کے مجھے جو ایک آنکھ سے بھی نظر آجاتا ہے وہ اکثر دو آنکھوں والے دوست کیوں نہیں دیکھ پاتے۔ شاید وہ چور کے ہاتھ کاٹ دینے پر تو یقین رکھتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کے ملزم اسی صورت مجرم کہلائے گا اگر وہ غریب ہو۔ ابھی پچھلے ہی دنوں احترام رمضان آرڈینس کی زد میں آکر سزا پانے والے پان فروش کو رہائی دے کر جج صاحب نے عدالتی نظام کی سستی پر معافی بھی مانگ ڈالی۔ لا حول ولا قوة، ارے صاحب کیا ہوا جو پانچ دن کی سزا چھ سال لمبی ہو گئی جیل کی دیوار سے باہر یہ کون سا آزاد ہیں وہاں بھی تو دیواریں ہیں، غربت بھوک اور دہشت کی دیواریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).