فرشتہ مومند کا بہیمانہ قتل اور شیاطین


گل نبی مومند کا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقے ضلع مومند ہے۔ یہ شریف النفس اور غریب سبزی فروش ایک عرصے سے اپنے اہل وعیال سمیت اسلام آبادمیں کرائے کے گھرمیں رہائش پذیر ہیں۔ دس سالہ فرشتہ مومندجوکہ دوسری جماعت کی طالبہ تھیں، گل نبی مومند کی ایک ننھی گڑیا تھی۔ پندرہ مئی کوجب یہ گڑیا کھیلنے کے لئے گھر سے نکلی تو بدقسمتی سے پھر یہ واپس نہیں آئی۔

پوچھ گچھ اوربھاگ دوڑ کے بعد گل نبی جب اپنی گڑیا کوپانے میں ناکام ہوئے توانہوں نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کروانے کے لئے مقامی پولیس تھانے کارخ کیا۔ گل نبی مومندکاشایدیہ خیال تھا کہ اول تو دارالخلافہ اسلام آباد جیسے سیف سٹی میں رہائش اختیار کرنے والوں کے مسائل کم ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگرکسی کوکوئی مسئلہ پیش آیا، توپھر ریاست کے چاق چوبند ادارے اور سریع الحرکت حکومت اسے راتوں رات ایڈریس کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔

لیکن پندرہ اور بیس مئی کے درمیانے عرصے میں گل نبی مومند کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ”اسلام آباد ہر گل نبی مومند کونہیں، بلکہ کچھ لوگوں کو آبادی اور خوشحالی کی ضمانت دیتاہے“۔

گل نبی مومند ایک طرف اپنی گمشدہ بچی کے غم سے نڈھال تھے اور دوسری طرف تھانے میں بے حس پولیس ان کی بچی کے لاپتہ یا اغواء ہونے کی ایف آئی آر درج کرنے میں حیلے بہانے کر رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق شہزاد ٹاون تھانے میں ایف آئی درج کرنے میں گل نبی اور ان کے اقربا کو گوناگوں پریشانیوں کا سامناکرنا پڑا۔ انہوں نے تھانے میں اس بارے میں دیے گئے درخواست میں موقف اختیار کیاتھا کہ ان کوشبہ ہے کہ ان کی بچی اغواء ہوئی ہے، لیکن ایس ایچ او کی طرف سے انہیں کہاجاتاہے کہ ”آپ کی بچی شاید کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی“۔

شہزاد ٹاون تھانے میں تین چار دن مسلسل ٹرخانے اور خوار کرنے کے بعدپولیس گل نبی مومندکی بچی کی صرف ایف آئی آر درج کرتی ہے۔ افسوس، گل نبی مومند کے فرشتہ کی رہائی کے لئے نہ کوئی تحقیقات ہوتی ہیں اور نہ بچی کو لاپتہ کرنے والوں کی گرفتاری کے لئے کوئی چھاپہ مارا جاتاہے۔ اور پھرننھی گڑیافرشتہ مومند ساتھ وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا۔

اطلاعات کے مطابق دو دن پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین علاقے میں واقع قریبی جنگل سے گزر رہے تھے کہ وہاں پر انہیں ایک نامعلوم بچی کی لاش ملی۔ لاش کی شناخت فرشتہ مومند کے نام سے ہوئی جو پانچ دن پہلے اغواء ہوئی تھی۔ اس فرشتے کو پہلے انسان نما شیاطین نے پہلے اپنی ناپاک ہوس کانشانہ بنایا اور پھراس کو جاں سے مارڈالا۔

سوال یہ نہیں کہ معاشرے میں درندے نما انسان کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ سوال یہ بھی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہرشخص کیوں ولی اللہ اور فرشتہ صفت کیوں نہیں ہے؟

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اس قسم کے وحشی درندوں اور انسان نماشیاطین سے نمٹنا بھی چاہتی ہے اور اگر واقعی چاہتی ہے تو کب اور کس وقت؟

فرشتہ مومند کی لاش جب جنگل سے ہسپتال پہنچتی ہے تو وہاں پربھی اس کی لاش کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوپارہا۔ پولی کلینک ہسپتال میں اس کا پوسٹ مارٹم ہونے نہیں دیا جارہا تھا، اور یہ پراسس تب چل پڑتاہے جب گل نبی مومند کے لواحقین اور ایک فلاحی تنظیم کے کارکن سخت گرمی اور روزے کی حالت میں اس شہر کے چوراہے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ اس دفعہ شہزاد ٹاون کے ایس ایچ او نے گل نبی مومند کو ان کے لخت جگر کی گمشدگی کے بارے میں پھر بھی تھوڑا گزارے والی زبان استعمال کی تھی کہ ”جناب! آپ کی بچی شاید کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی ”۔

مجھے یقین ہے کہ اگر بے حسی، نا اہلی اور دوغلے پن کی یہی حالت برقرار رہی تو اس سیف سٹی کے تھانوں میں اس طرح کے معاملات میں بدقماش پولیس افسر رُلتے والدین کو دھکا دینے کے ساتھ ساتھ پیچھے سے یہ جملے بھی کسھیں گے کہ“ تجھے کیاپڑی کہ بچے پیدا کرتے ہو، اب اس کی گمشدگی کے لئے بھی تیار رہو ”۔ یہ ہے اسلام آباد کی پولیس جس کا نظام جدیدخطوط پربھی استوار ہوچکاہے اور اس کی کارکردگی کو جناب عمران خان صاحب نے معیاری بھی کرلی ہے۔ ہماری پولیس کی بے حسی پر کراچی یاد آیا جہاں دو ماہ پہلے عالم اسلام کے مایہ ناز اسلامی اسکالر مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہواتھا۔

اس حملے میں مفتی عثمانی صاحب کے قافلے میں شامل دومحافظ اورایک ڈرائیور شہیدجبکہ ان کی ذاتی گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہواتھا۔ تقی عثمانی اس حملے کی تفصیلات بتارہے تھے کہ چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کے بعد جب ان کا ڈرائیور زخمی حالت میں گاڑی چلاتے ہوئے ہسپتال کی طرف جارہے تھے توراستے میں ایکسپو سینٹر کے سامنے ایک پولیس موبائل دکھائی دی جس میں بے شمار پولیس اہلکارسوارتھے۔

ڈرائیور گاڑی کو پولیس موبائل کے قریب لے گیا اور میں نے ان سے درخواست کی کہ میری گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی اہلکار گاڑی ڈرائیو کرکے ہم لوگوں کو اسپتال تک پہنچادے۔ لیکن پولیس اہلکاروں نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ خود ہی اسپتال پہنچ جائیں، میں نے سوچا کہ ان سے بحث کرنے میں مزید وقت ضائع ہوگا، سو میرے ڈرائیور نے زخمی حالت میں گاڑی لیاقت نیشنل اسپتال تک پہنچادی ”۔ یہ تھا شہرقائدکی پولیس کا رویہ کہ مولانا عثمانی کی اس گاڑی کو بھی اسپتال تک ڈرائیوکرانا نہیں چاہتی جس کا ڈرائیور شدید زخمی جبکہ فرنٹ سیٹ پر محافظ خون میں لت پت شہید پڑاہے۔ اور وہ ہے دارالخلافہ اسلام کی پولیس کی کارکردگی جس کے بارے میں ہم بات پہلے کرچکے، کہ پانچ دن میں ایک معصوم لاپتہ بچی کے ایف آئی آر بھی ان سے درج نہیں ہوپارہی۔

معصوم فرشتہ مومند کے ساتھ پیش آنے والے اس شرمناک اور انسانیت سوز واقعہ عمران خان صاحب کی حکومت کے نام نہاد مثالی پولیس کی منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہیں کہ اس قسم کے دیگر واقعات کی طرح فرشتہ مومندقتل کیس کا بھی از خود نوٹس لے کر اس انسانیت سوز قتل کیس کے تمام تر ذمہ داروں سے نمٹیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).