ایک افطاری سب پہ بھاری


کل پیپلز پارٹی کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں حزبِ مخالف کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اعزاز میں ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ افطار ڈنر پیپلز پارٹی سینٹرل پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ صاحب کے جواں سال بیٹے کی حادثاتی رحلت کی وجہ سے ملتوی کرکے اتوار کی شام رکھی گئی۔ رمضان المبارک میں ہر خاص و عام اپنی استطاعت کے مطابق اپنے حلقۂ احباب کے اعزاز میں ایسی افطار پارٹیوں کا بندوبست کرتا ہے، سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان، اپنے ہم خیال سیاسی اکابرین و مختلف جماعتوں کے قائدین کو ایک میز پہ بٹھانے کے لئے برسوں سے افطار پارٹیوں کی اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

اور تو اور غیر مذہب کے لوگ، مغربی ممالک کے سربراہان و مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اس طرح کے افطار ڈنرز کا اہتمام کرتے ہیں۔ مگر کل کی افطار ڈنر جو زرداری ہاؤس میں بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں منعقد ہوئی وہ سیاسی سماجی حلقوں خاص طور پر حکومتی و اتحادی صفوں میں بھونچال پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ افطار ڈنر سے ایک روز پہلے ہی سرکاری توپوں کا رخ حزبِ اختلاف کی افطار ڈنر کی جانب ہوگئے۔

وزیراعظم سے لے کر ان کے چھوٹے سے چھوٹے حواری اپوزیشن قیادت کے خلاف اول فول بکنے، الزامات کی فہرست بنا کے ٹی وی چینلوں پہ اپوزیشن کے خلاف لفظوں کی گولا باری میں مصروف ہوگئے۔ کچھ زبانی اور ذہنی بواسیر میں مبتلا سرکاری گماشتے تو اخلاقیات کی تمام حدیں ہی عبور کرگئے، ایک افطار ڈنر نے پورے سرکاری سیٹ اپ کو ہی تتربتر کردیا ایسا لگا کہ جیسے اپوزیشن افطاری کے لئے نہیں بلکہ وزیراعظم ہاؤس پہ قبضہ کرنے کے لئے جمع ہورہی ہے۔

افطار ڈنر سے ایک روز پہلے محترمہ فردوس عاشق بولیں کہ یہ افطار ڈنر چوروں کا اپنی چوری بچانے کے لئے اجتماع ہے، انہوں نے اپوزیشن کی افطار ڈنر کو حکومت کے خلاف سازش قرار دیا اور اسے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی کی انڈورسمنٹ بھی کہا جبکہ یہ بھی کہا کہ یہ افطار ڈنر خان صاحب کے اس بیانئے کو درست ثابت کر رہی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے بڑی معصومیت سے شکوہ کرنے کے انداز میں کہا کہ اب مریم اور بلاول بھی افطار ڈنر پر ملنے جا رہے ہیں۔

مطلب سرکاری بوکھلاہٹ اور ہڑبونگ نے ایک بات تو بالکل واضح کردی کہ اپوزیشن کا مل بیٹھنا خان صاحب کی سرکار کے لئے کتنا دردِ سر ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد سے نیازی سرکار اور وزراء کی بیان بازیاں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی تھیں کہ خان صاحب کے لئے اپوزیشن خاص طور پر پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کی سیاسی قربتیں اور مل بیٹھنا کس قدر مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔

ابھی نصف رمضان المبارک باقی ہے اسی طرح کی سیاسی افطار ڈنر پارٹیاں مزید بھی ہوں گی لیکن اس ایک افطار ڈنر نے سرکاری صفوں میں جو لرزہ طاری کردیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اگر ایسی ایک دوسیاسی حکومت مخالف افطار پارٹیاں اور ہو گئیں تو کہیں پہلے سے طوفانوں کی زد میں گھِری کمزور دل، کمزور سہاروں اور غیر سیاسی بے ساکھیوں پہ کھڑی نیازی حکومت مارے خوف کے کُومے میں ہی نہ چلی جائے۔ اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ پچھلے کچھ عرصے سے فرنٹ فٹ پہ کھیل رہی ہے، مولانا فضل الرحمان نیازی راج کے خلاف اپنی تحریک شروع کر چکے ہیں، جبکہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری انتہائی متحرک اور جارحانہ سیاسی موڈ میں نظر آ رہے ہیں، کیونکہ نیازی سرکار ایک طرف احتساب ڈرامے کی آڑ میں انتقام پہ اتری ہوئی ہے تو دوسری طرف اس نے نیب چیئرمین کو بھی اپنی سرکاری ذمہ داریاں چھوڑ کر سیاست سیاست کھیلنے کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔

پچھلے کچھ ماہ سے ملک میں جاری یک طرفہ احتساب ڈرامے میں خاصی تیزی آئی ہوئی ہے سرکاری ٹولے میں شامل آدھے سے زیادہ کرپٹ، کرپشن، لوٹ مار، قرضے معاف کرانے کے مقدمات میں بری طرح سے ملوث لوگوں سے نیب نے صرفِ نظر کیا ہوا ہے جبکہ اپوزیشن اور ان کے کارکنان کے خلاف ماورائے آئین اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے چیئرمین نیب پوری طرح سے پی ٹی آئی کے ایجنڈے پہ عمل پیرا ان کے دست راست نظر آتے ہیں۔ ان کی تازہ ترین پریس کانفرنس بھی اسی بات کا واضح ثبوت ہے۔

علیم خان محض دو ماہ میں ضمانت پہ رہائی پاتے ہیں تو دوسری جانب شرجیل میمن سمیت نجانے کتنے بے گناہ سیاسی و سرکاری لوگ ضمانتوں سے محروم آئین میں وضع کی گئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پشاور بس منصوبے، بلین ٹری منصوبے، کے پی کے میں گھوسٹ اسکولوں اور طلباء کی جعلی انرولمنٹ کے ذریعے اربوں روپے کے میگا کرپشن اسکینڈلز سمیت بدعنوانیوں کے درجنوں مقدمات نیب کی نظر سے اوجھل ہیں۔ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو چودھری پرویز الٰہی کو کلین چٹ دے دی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، پرویز خٹک، شاہ فرمان، سمیت کے پی کے میں کرپشن اور لوٹ مار کے سیکڑوں مقدمات میں ملوث حکومتی لوگ چین کی نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر اپوزیشن اور عام سرکاری ملازمین کے خلاف خان صاحب کی ایما پہ نیب آنکھیں بند کیے عمل پیرا نظر آ رہی ہے۔

ایسے میں جو اپوزیشن آہستہ آہستہ اپنے نظریات اور سیاسی ایجنڈے کے تحت متحد ہوتی نظر آ رہی ہے اور بلاول بھٹو زرداری کے ایک افطار ڈنر نے سرکاری پارٹی اور اس کے اتحادیوں میں سکتہ طاری کردیا ہے۔ یہ اس بات کا پیغام ہے کہ آنے والے دن خان صاحب پہ بھاری پڑنے والے ہیں۔ پہلے ہی ملک کے معاشی، خارجی اور سیاسی معاملات خان صاحب کی دسترس سے باہر نظر آتے ہیں، اوپر سے ان کی ہٹ دھرمی، ان کے رویوں میں تکبر کی جھلک ہر وقت اپوزیشن کے لئے غصہ اور ان پہ لفظوں کی گولا باری ایک ملکی سربراہ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہیں، انہیں اپنے رویوں میں اعتدال لانا چاہیے، ملک کو درپیش انتہائی خطرناک چیلینجز سے نمٹنے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے مگر ان کے پچھلے دس ماہ کے طرزِ حکومت نے ملک کے مقتدر حلقوں خاص طور پر عوام الناس کی خان صاحب سے وابستہ امیدوں کو زمین بوس کر دیا ہے۔

ایسے میں اپوزیشن بھی اگر صرف اس وجہ خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھے کہ نئی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تو شاید یہ مناسب نہ ہوگا۔ اپوزیشن کا فرض ہے کہ حکومت کی غلط سیاسی، معاشی، داخلی، خارجی پالیسیوں پہ نہ صرف کڑی نظر رکھے بلکہ غلطیوں کی صورت میں ڈٹ کر ان پہ تنقید بھی کرے۔ خان صاحب شاید یہ بھول گئے ہیں کہ دنیا میں قدم رکھنے والا بچہ بھی دس ماہ میں اپنے پیروں پہ چلنا شروع کر دیتا ہے مگر دس ماہ گزرنے کے بعد بھی نیازی صاحب کی حکومت نے چلنا تو دُور اپنی سمت کا بھی تعین نہیں کیا ہے۔

ایسے میں شاید یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ لے کر طاقتور حلقوں کے آشیرباد کے بعد بھی لڑکھڑاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اسی تناظر میں جب بلاول بھٹو زرداری صاحب کے افطار ڈنر کا اعلان ہوا تو سرکاری صفوں میں زلزلے کے آثار نمایاں نظر آنے لگے ایک عام سا روایتی افطار ڈنر جو ہر رمضان المبارک میں ہر سیاسی جماعت اپنے سیاسی ہم خیالوں اور دوستوں کے اعزاز میں منعقد کرتی ہے بہت ہی خاص بن گیا۔ اس کی وجہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کا ایک ٹیبل پہ بیٹھنا، مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل پہ مشورے کرنا، عید کے بعد خان صاحب کی سرکار کے ہنی مون پیریڈ کے خاتمے کی نوید سنانا نظر آتی ہے۔ یہ افطار ڈنر ایک نئے سیاسی منظرنامے کا سبب بھی بن گیا ہے۔ مستقبل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک اور میثاقِ جمہوریت کی بنیاد بھی ڈال گئی ہے اور بلاول کی یہ ایک افطاری سارے سرکاری اقدامات پہ بھاری پڑتی نظر آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).