ایسے واقعات دُنیا بھر میں ہوتے ہیں، خاص طور پہ یورپ میں


’’ایسے واقعات دُنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ خاص طور پہ یورپ میں۔‘‘
زینب یا فرشتہ جیسی معصوم سی بیٹی کی لاش سامنے آنے پر، جب کوئی ایسا کہتا ہے، تو میرا دِل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی بہن، بیٹی یا کوئی عزیز ایسی نہیں ہو گی، خدا نخواستہ جس کا ایسا ہی انجام سوچ کر ان کی روح نہ کپکپا جاتی ہو گی؟ ایک لمحے کو مان لیتے ہیں، کہ دُنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، تو کیا کہنے والا یہ کَہ رہا ہے، کِہ بس یہی مقدر ہے، اور تقدیر کا فیصلہ سمجھ کے قبول کر لو؟

’’فرشتہ تو پاکستانی ہی نہیں تھی۔ اُس کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے، اور انھوں نے جعلی شناختی کارڈ بنوایا ہوا ہے۔‘‘
ایسی خبر کو نمایاں کر کے نشر کرنے کا یہ کون سا موقع ہے؟ اور یہ مرہم رکھنے کا کون سا طریقہ؟ کیا رپورٹ کرنے والا یہ کَہ رہا ہے، چوں کِہ فرشتہ کا تعلق پاکستانی قوم سے نہیں، لہاذا اُس کا ریپ، اُس کا خون مباح ٹھیرا؟ کیا میڈیا نے قوم کو بے حِسی میں مبتلا کیے رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے؟

مغوی کے ورثا تھانے میں رپٹ درج کروانے جاتے ہیں، تو داد رسی کرنے والے اُلٹا انھیں یہ کہتے ہیں، کِہ تمھاری دس گیارہ سالہ بیٹی گھر سے غائب ہوئی ہے، تو کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی؟ کیا دُنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ خاص طور پہ یورپ میں؟ کیا دُنیا بھر کی ریاستیں اسی طرح کے نظام عدل پہ قائم ہیں، خاص طور پہ یورپ کی ریاستیں؟ کہنے والے ایک لمحے کو بھی  نہیں سوچتے۔ ایسی بے حسی کا مظاہرہ دیکھ کے میں کانپ جاتا ہوں۔ میں یہ منظر دیکھتا ہوں، کہ میری بیٹیاں ہیں، اور ارد گرد بھیڑیے، میں ریاست کو پکارتا ہوں، وہ میرے ساتھ نہیں دیتی۔ ٹیلے پہ بیٹھا تماشائی جو میرا ہم وطن بھی ہے، آوازہ کستا ہے، ’’ایسا دُنیا بھر میں ہوتا ہے، خاص طور پہ یورپ میں۔‘‘ کیا وہ بے خبر ہے کِہ  بھیڑیے کسی بھی وقت اُس ٹیلے پر پہنچ سکتے ہیں، جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھ رہا ہے؟!

ہاں یہ سچ ہے کہ دُنیا بھر میں ہر طرح کے جرائم ہوتے ہیں۔ چوری چکاری، فراڈ، ڈاکا، بردہ فروشی، اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، ریپ، اور جس جس جرم کا داغ بنی نوع انسان کی پیشانی پر ہے، وہ سب جرائم ہوتے ہیں، لیکن قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی یہ بے حسی دیکھنے، سننے میں نہیں آتی، جو ہمارے یہاں‌ ہے۔ مظلوم مدد کے  لیے دُہائی دیتا ہے، اور اُس کی تضحیک کی جاتی ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والوں کے یہاں ملزم کی، مجرم کی، ظالم کی عزت ہے۔ ان کی نظر میں مظلوم کی، لٹنے والے کی، کم زور کی خاک بھر عزت نہیں ہے۔ کیا ایسا ہی ہوتا ہے، دُنیا بھر میں؟ کیا ایسا ہی ہوتا ہے یورپ میں؟ کیا ایسا ہی ہوتا تھا مدینہ کی ریاست میں جس کا ہمیں خواب دکھایا جاتا رہا؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان، کیا یہ وہی ریاست ہے، اسلامی دُنیا کی واحد ایٹمی طاقت، جسے دُنیا بھر سے خطرہ لاحق ہے، اسی لیے اسے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ یہ ریاست اپنے شہریوں کو بے پناہ تحفظ دیتی آئی ہے؟ اُنھیں رُسوائی سے بچاتی ہے؟ اُن کی عزت نفس پہ آنچ ہیں آنے دیتی؟ اُن کی جان، اُن کا مال یہاں محفوظ ہے؟

کیا یہ وہی ریاست ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے، کہ عالم اسلام کی قیادت سنبھال رکھی ہے؟ دُنیا بھر میں سب سے اچھے مسلمان یہاں‌ پائے جاتے ہیں؟ یہ وہی ریاست ہے ناں جہاں اسلام کو سب سے زیادہ خطرے کا سامنا رہتا ہے؟ یہ وہی ریاست ہے نا جس نے قومی اسمبلی سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوا کے اسلام کو محفوظ کر لیا؟ کیا یہی وہ ریاست ہے، جس نے سوویت یونین کو پارہ پارہ کر دیا؟ یہ وہی ایٹمی طاقت ہے ناں، بھارت جس کا ازلی دشمن ہے؟ حتا کہ برادر اسلامی ملک ایران بھی حسد کرتا ہے؟ یہی وہ ریاست ہے، جس کا نام سن کر اسرائیل کو تشویش ہونے لگتی ہے، کہ کہیں یہ ملک یہودی ریاست کو برباد نہ کر دے؟

یہ وہی ریاست ہے، جس کی ہیبت سے کل عالم لرزاں ہے، تو یہاں کا شہری اپنی ہی ریاستی اداروں کے ہاتھوں خوار کیوں ہے؟ عدل کو کیوں ترس رہا ہے؟ کیوں انصاف کی بھیک مانگتے پایا جاتا ہے؟ جہالت میں کیوں پڑا ہے؟ مان لیا جائے کہ دُنیا ہم سے خوف زدہ ہے، تو اس لیے نہیں کہ یہ کوئی مضبوط ریاست ہے، وہ ان کی جہالت سے خوف زدہ ہے، کِہ ایسے جاہل، دُنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ  ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریاست کو، شہری کو کسی غیر ملک سے نہیں، اپنے ہی ہم وطنوں سے خطرہ ہے؟

جہاں ایک پہ ظلم ہو گا، کہیں نا کہیں سے کوئی دوسرا اُٹھے گا، اور بتائے گا، کہ ’’ایسا دُنیا بھر میں ہوتا ہے۔ یورپ میں بھی۔ امریکا میں بھی۔‘‘ ایسے بے غیرت صرف ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں، جو مظلوم کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ ایسے بھیڑیوں کے بیچ میں کوئی انسان سلامت کیوں کر رہ سکتا ہے؟ ان کے بیچ میں کوئی انسان ہے بھی تو اسے بھیڑیا بن کے رہنا ہو گا۔ ورنہ اس کی حفاظت کی ضمانت کون دے گا؟ کوئی شبہ نہیں کہ ہماری ریاست شہری سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ یہاں انسان کم ہوتے جاتے ہیں اور بھیڑیے بڑھتے جا رہے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran