زینب، اسماء، عصمت، فرشتہ اور میں


اب تو روز کی بات ہے، کبھی زینب کی خبر آتی ہے، کبھی اسماء کی، کبھی عصمت کی تو کبھی فرشتہ کی۔ کسی کا کیس سوشل میڈیا پر کہرام مچا دیتا ہے تو کوئی بس اخبار کے کسی اندر کے صفحے پر کسی کونے کھدرے میں پڑی خبر تک ہی رہ جاتی ہے۔ سب پر ایک ہی ظلم ہوتا ہے، جنسی زیادتی کے بعد قتل۔ ان کا قصور صرف ان کی جنس جو انہیں قدرت نے عطا کی۔

دنیا میں خواتین کو سب سے زیادہ عزت و احترام دینے کا دعویٰ کرنے والی یہ قوم دو چار دن ٹویٹر پر ان سب کے لیے جسٹس مانگتی ہے اور پھر ایسے ہی کسی دوسرے کیس کے ہونے تک ’آخر یہ عورتیں کیسی آزادی چاہتی ہیں‘ کے ٹویٹس کرتی ہے۔

ہم کیوں آج تک اپنے ملک کو خواتین کے لیے محفوظ نہیں بنا سکے؟ کیوں مردوں کو لگتا ہے کہ وہ کسی بھی عورت پر آواز کس کر، چھیڑ خانی کر کے یا اس کا ریپ کرنے کے بعد بھی آزادی سے گھوم سکتے ہیں؟ کیوں انہیں لگتا ہے کہ ان کی ’مردانگی‘ اس ملک کے قانون سے بالاتر ہے؟

ہم لڑکیاں ہوش بعد میں سنبھالتی ہیں، جنسی ہراسانی کا شکار پہلے ہوتی ہیں۔ اب تو مجھے ٹھیک سے یاد بھی نہیں ہے کہ جنسی ہراسانی سے میرا پہلا تعارف کب ہوا تھا۔ شاید دس سال کی عمر میں یا شاید اس سے بھی پہلے۔ واقعات دھندلا گئے ہیں لیکن وہ لمس نہیں۔ اس لمس سے جڑا نفرت اور گھن کا احساس اب بھی بالکل ایسے ہی ہے جیسے اس وقت تھا۔ کنفیوزڈ ہوں کہ یہ نفرت خود سے ہے یا اس سے۔

اب باہر جاتے ہوئے بڑا سا دوپٹہ پھیلا کر لینے کی عادت ہو گئی ہے۔ جانتی ہوں کہ یہ میرے جسم کا نہیں بلکہ اس کے دماغ کا فتور ہے مگر اسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ چاہتے نہ چاہتے بھی لاشعوری طور پر خود کو الزام دیتی ہوں۔ سڑک پر چلتے ہوئے بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کہ کوئی موٹر سائیکل سوار چپکے سے پیچھے نہ آ رہا ہو۔ یہاں سڑکوں پر ہر لڑکی اسی خوف کے ساتھ چلتی ہے۔ اوبر اور کریم نے زندگی بہت آسان کر دی ہے لیکن پھر بھی دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ سڑکیں ہماری ہو کر بھی ہماری نہیں ہیں۔ سڑکیں چھوڑو، ہمارے تو گھر بھی ہمارے نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے جب کوئی لڑکی موٹر سائیکل چلاتی نظر آتی ہے تو ہم دل ہی دل میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو اس خوف سے لڑ رہی ہے اور ان سڑکوں پر اپنا حق جتا رہی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اس جرات کی بہت بھاری قیمت چکا رہی ہوگی۔ محلے دار اوررشتے دار طرح طرح کی باتیں بانتے ہوں گے لیکن کوئی ایک ہوگا جو اس کی ہمت ہوگا۔ ہم اسی ہمت کے سہارے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ان لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر وہ ہوتی ہیں جو جنسی ہراسانی کو قبول نہیں کرتیں بلکہ اسے ایک جرم سمجھتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ انہیں بھی اپنی جرات کی ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جیسے میشا شفیع کر رہی ہے۔ اس بہادری کی قیمت ’بری عورت‘ کے لیبل کی صورت میں موصول کرنی پڑتی ہے۔

اخبارات میں روز خبریں آتی ہیں۔ کسی کا مجرم اس کا چچا، کسی کا مجرم تایا، کسی کا مجرم ماموں، تو کسی کا مجرم اپنا بھائی یا باپ۔ دارالعلوم دیوبند کراچی کے دارالفتاء میں اس معاملے پر سب سے زیادہ سوال سسر کے حوالے سے آتے ہیں۔ اپنے ہی بیٹے کی بیوی پر نیت خراب کرنا ہمارے مردوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

ایک مہینہ پہلے ننھی نشویٰ کے لیے بلاگ لکھا تھا، اسی میں عصمت کا بھی ذکر تھا جو دانت کا علاج کروانے اسپتال گئی تھی مگر وہاں اس کی عصمت دری کے بعد ایک انجیکشن لگا کر اسے قتل کر دیا گیا۔ ایک عورت کو مارنا اتنا آسان ہے۔

پچھلے سال ہم زینب کا رونا رو رہے تھے۔ وہی سات سال کی بچی جس کی نعش ایک کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ملی تھی۔ اس کے قاتل کو ’عبرت ناک‘ سزا دینے کے باوجود 2018 ء میں ہر روز تقریباً دس بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تعداد 2017 ء سے گیارہ فیصد زیادہ ہے۔

لیکن آپ فکر نہ کریں پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ یہاں خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیں جو ترقی یافتہ دنیا اب تک اپنی عورتوں کو نہیں دے سکی۔ ہم اپنی خواتین کو دوپٹے پیکو کروا کر دیتے ہیں، وہ اے ٹی ایم کے باہر موجود ہوں تو پہلے انہیں پیسے نکلوانے دیتے ہیں، تندور سے روٹیاں لینے آئیں تو ہم نان بائی کو انہیں پہلے روٹی دینے کا کہتے ہیں، انہیں گھر بٹھا کر کھلاتے ہیں اور خود باہر خواری کرنے کی آڑ میں دیگر عورتوں کی زندگیاں اجیرن کرتے ہیں۔ آپ اپنی بچیوں کو آٹھ گز لمبا دوپٹہ اوڑھائیں، ان پر آیت الکرسی پھونکیں اور بس بے فکر ہو جائیں۔ اب جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہو وہ ان کی قسمت اور قسمت کے آگے کس کا زور چلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).