فرشتہ کی قومیت، نیوزی لینڈ اور پاکستان


اسلام آباد میں مبینہ طور پر آبروریزی کے بعد بہمیانہ انداز میں قتل کی جانے والی معصوم بچی فرشتہ کے والدین کے بارے میں سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ وہ مہمند نہیں افغان ہیں اور یہ کہ یہ بہیمانہ قتل افغانیوں نے کیا ہے۔ اس بات کو پھیلانے کا مقصد کیا ہے؟

اگر معصوم فرشتہ کا باپ افغان ہے تو کیا یہ بات کرنے اور پھیلانے والوں کے خیال میں اس سے بچی پر ظلم جائز ہوجاتا ہے اور ہمیں اس پر آواز نہیں اٹھانی چاہیے؟
فرشتہ کو غیر ملکی قرار دے کر اگر اس معاملے کو معمولی واقعہ ثابت کرنا اور کچھ ”ناپسندیدہ“ عناصر کی تحریک کو روکنا مقصود ہے تو یہ ایک شرم ناک سوچ ہے۔

افغان تو پھر بھی مسلمان اور ہمارے پڑوسی بھائی ہیں۔ بچی کا باپ اسرائیلی یہودی، کٹر بھارتی ہندو یا دیسی بدیسی دہشت گرد بھی ہوتا تو بھی یہ اس کی بچی پر ظلم کو جائز نہ کرتا اور ہمیں بچی کے لواحقین کے ساتھ انصاف کے حصول اور ان جنسی دہشت گردوں کو پکڑنے اور قرار واقعی سزا دینے کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔

مظلوم اور مقتول کو انصاف دلانے کے لیے اس کی ڈومیسائل، رنگت، قومیت، مذہب، فرقہ اور جنس کو اگر معیار بنایا جائے تو ظلم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنا نا ممکن ہو جائے گا جو ظلم کے خاتمے کے لیے لازمی ہے۔ یوں ظلم اوربہیمیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کیا یہ لوگ یہی چاہتے ہیں؟

ظلم تو ظلم ہوتا ہے ہے چاہے کوئی بھی کرے اور کسی پر بھی کرے۔ ہمیں ہر قسم کے ظلم کی مذمت کرنا اور مظلوم، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہبی یا نسلی گروہ سے ہو، کے ساتھ کھڑا ہوناچاہیے۔ ظالم کی مخالفت کے لیے بھی اس کی کسی نسلی، مذہبی، سیاسی گروہ اور ادارے سے وابستگی یا عدم وابستگی کو نہ دیکھا جائے۔

خدشہ ہے یہ وہی اعتراض ہے جو اس طرح کے واقعات میں ایک خاص طبقہ مذہبی تعلیمات کو نظرانداز کرتے ہوئے لگاتا ہے کہ جب فحاشی اور بے پردگی عام ہو، عورتیں بن ٹھن کر نکلتی ہوں، لڑکیاں باہر نکلنے میں بے احتیاطی کرتی ہوں، شادی کرنا مشکل بنا دیاگیا ہو اور جنسی تعلیم دے کر بچوں کو وقت سے پہلے جنسی اعمال سے آگاہ کیا گیا ہو تو پھر ایسا تو ہوتا رہے گا۔

گویا اوپر مذکورہ چیزوں کی موجودگی میں عصمت دری کرنے والے کو قصوروار قرار دینا ٹھیک نہیں بلکہ الٹا زینب اور فرشتہ گناہگار ہیں کہ انہوں نے باہر نکل کر ان کو موقع دیا۔

نیوزی لینڈ اور جسینڈا آرڈرن

نیوزی لینڈ میں چند ہفتے پہلے مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا۔ قاتل کو مگر اس کے اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں نے اپنا ماننے سے انکار کردیا اور پوری قوم اپنے قابل فخر وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن کی قیادت میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔

وہاں اگرچہ مسلمانوں اور دیگر غیرملک تارکین وطن کو نکالنے کے لیے مہم چلائی جاتی رہی ہے مگر نیوزی لینڈ میں وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن اور اس کی قوم نے بے مثال ہمدردی کی ایسی فضا پیدا کی کہ کسی کو بھی مسلمانوں کو غیر کہنے یا انہیں قصوروار ثابت کرنے کی جرأت نہ ہو سکی۔

نیوزی لینڈ میں یہ فضا کیسے بن گئی؟

نیوزی لینڈ کی قیادت نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن نے لگی لپٹی رکھے بغیرکہا ”یہ دہشت گردی کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، اس کا کوئی جواز نہیں تھا، مسلمان ہمارا حصہ ہیں، ان کے دکھ اور تکلیف میں ہم شریک ہیں اور ان پر حملہ ہماری تہذیب پر حملہ ہے۔ “ انہوں نے مسمانوں کو سینے سے لگایا، قومی سوگ کا اعلان کیا اور سیاہ لباس زیب تن کیا، ان کے جنازوں میں شرکت کی اور زخمیوں کی عیادت کی۔ پوری قوم بھی چنانچہ مظلوم و مغموم مسلمانوں کی جلد پشت پناہ بن گئی۔

پاکستان میں یہ فضا کیوں نہیں؟

عربی کا ایک مقولہ ہے لوگ اپنے حکمران کے دین پر ہوتے ہیں یعنی اس کا طرزعمل اپناتے ہیں۔ ہماری موجودہ حکمران اشرافیہ نے اب تک غریب مظلوموں سے ہمدردی کے سلسلے میں کوئی قابل فخر مثال قائم نہیں کی۔

اب تک معصوم فرشتہ جیسی بہیمیت کا ارتکاب متعدد مرتبہ کیا گیا ہے لیکن ریاست مدینہ کو ماڈل قرار دینے والی جناب عمران خان کی حکومت مظلوم کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آئی۔ صرف سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملاقات کرکے فرشتہ کے والد کی ڈھارس بندھائی ہے۔

ساہیوال میں بے گناہ افراد قتل ہوئے اور دو معصوم بچیاں باقی رہ گئیں۔ ہماری قیادت ان کے سر پہ دست شفقت رکھنے ان کے پاس نہ گئی۔ اس کے بعد مردان میں بھی ایسے ہی ایک واقعے میں متاثرہ خاندان سے ہمدردی میں تساہل برتا گیا۔ اب چار پانچ روز تک فرشتہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج نہ کرنے والے پولیس افسر کو صرف معطل کیا گیا ہے۔

اس واقع میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے مگر ساتھ ہی ملک میں چائلڈ ابیوز کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سد باب کے لیے لائحہ عمل بھی بنایا جائے۔ اس حوالے سے والدین کی تربیت کے لیے مذہبی و سیاسی قیادت اور نشریاتی اداروں کو خصوصی مہم اور تعلیمی اداروں میں بھی بچے بچیوں کے لیے آگاہی مہم چلانی ہوگی۔
یاد رکھا جانا چاہیے کہ انصاف کرنے /حاصل کرنے کے لیے مظلوم اور ظالم کی ڈومیسائل کو دیکھنا کسی مہذب قوم کا شیوہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).