کفالت یتیم، جنت سے رفاقت رسول تک


میری یاد داشت میں جو زندگی کی شبیہ ہے وہ میرے بابا کی ہے۔ میں کیسے ان کی انگلی پکڑے گلی سے گزری تھی اور انہوں نے مجھے آئس کریم دلائی تھی۔ شاید ہر فرد کی یاد داشت میں جو زندگی کی ابتدا کی شکل ہے، وہ اپنے والدین کے ہم راہ ہی ہے۔ لیکن کچھ ایسی بھی بیٹیاں ہیں جنہیں بابا کی جھولی میں کھیلنے اور ان کی انگلی تھامے زندگی کا سفر طے کا موقع نہیں ملتا اور نا ہی ان کی یاد داشت میں ایسی کوئی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان کی یادیں معاشرے کا جبر سہتے، والدین کی بانہوں میں کھیلتے ہم جولیوں کو ترستی نگاہوں سے دیکھنے کی ہوتی ہیں۔ ان بچوں کو دنیا یتیم بچوں کے نام سے جانتی اور پکارتی ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت صرف ایشیا ہی میں چھے کروڑ دس لاکھ بچے یتیم ہیں۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان میں 42 لاکھ بچے یتیم ہیں اور پاکستان یتیم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پہلے دس ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں موجود یتیم بچے تعلیم، صحت، روزگار اور خوراک کے بنیادی مسائل سے دو چار ہیں۔ جن کے لئے حکومتی سطح پر خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جاتے۔ تاہم چند فلاحی ادارے اور مخیر، مادیت پرستی کی اس دور میں بھی ان بچوں کے لئے امید کے دیے روشن کیے ہوئے ہیں۔

رمضان المبارک جہاں رحمتوں، برکتوں اور رب کریم کی عنایتوں کو سمیٹنے کا مہینہ ہے، وہیں اس ماہ میں مساجد آباد ہوتی ہیں، خیرات دی جاتی ہیں، اللہ کی راہ میں بے دریغ لٹایا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کے اسی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکی کی سماجی تنظیم نے 11 دسمبر 2013 کو 15 رمضان المبارک کو عالمی یوم یتامی منانے کا اعلان کیا۔ ترکی سے شروع ہونے والا یہ پیغام پاکستان پہنچا اور مختلف این جی اوز کے پلیٹ فارم پاکستان آرفن کیئر پروگرام کے تحت اس دن کو 15 رمضان المبارک ہی کو منانے کا فیصلہ کیا ہے اور سینٹ اور قومی اسمبلی نے بھی مئی 2018ء کو اس دن کو سرکاری طور پر منانے کی قرارداد منظور کی اور ایوان صدر میں مرکزی تقریب منانے کا اعلان بھی کیا۔ یہ دن منانے کا مقصد قومی سطح پر یتیم بچوں کے حوالے سے قومی سطح پر آگاہی پھیلانا ہے۔

اسلام یتیم بچوں کی کفالت کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ نبی حضرت محمدﷺ خود بھی یتیم تھے اورآپ مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں کے لئے سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے:
”لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں، جواب دو کہ جو مال تم خرچ کرتے ہو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافرو ں پر خرچ کرو گے، اللہ اس سے با خبر ہو گا“۔

سورہ النسا میں ارشاد ہوا:
”اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کرو گے، وہ اللہ کے علم سے چھپی نہیں رہے گی۔‘‘
اسی طرح سورہ الضحٰی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں پر سختی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت محمدﷺ نے فرمایا، جس کسی نے یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا، تو اس کے ہاتھ کے نیچے آنے والے بالوں کے برابر نیکیاں اس کے حق میں لکھ دی جائیں گی۔

اس وقت پاکستان میں ایدھی فاؤندیشن، پاکستان بیت المال اور الخدمت فاؤنڈیشن سمیت کئی مخیر ادارے یتیم بچوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اگر الخدمت فاونڈیشن کی بات کی جائے تو اس ادارے نے 2005 ء میں زلزلے کے نتیجے میں یتیم ہونے والے بچوں کے لئے ”آغوش“ کے نام سے اٹک میں ایک سینٹر قائم کیا، جس میں بچوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات دی گئیں۔ ان بچوں نے معاشرے کے دیگر بچوں کی طرح تعلیم حاصل کی۔

اس وقت ملک بھر میں الخدمت کے 13 ٓٓٓآغوش سینٹر قائم ہیں۔ ان میں 2 ہزار سے زائد یتیم بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے۔ ان بچوں کو ایلیٹ کلاس کے بچوں کے برابر رہائش اور کھانا دیا جاتا ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انہیں تعلیم دی جارہی ہے۔ الخدمت نے حال ہی میں مری کے پرفضا مقام پر بورڈنگ نظام کے تحت سٹیٹ آف دی آرٹ سینٹر تعمیر کیا ہے۔ جس میں بچوں کو دیگربچوں کے برابر سہولیات دی جارہی ہیں۔ فاونڈیشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مشتاق مانگٹ کے مطابق وہ ملک بھر 11 ہزار سے زائد بچوں کی کفالت کر رہے ہیں، جن کا ماہانہ وظیفہ مخیر حضرات ان کے اکاؤنٹس میں بھیجتے ہیں۔ ملک بھر ایسے کئی ادارے قائم ہیں، ہمارا فرض ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسے اداروں کے دست و بازو بنیں۔

آج کے یتیم بچے کل کو جوان ہوں گے، بچپن میں انہیں محرومیاں، احساس کمتری ملتی ہے، اور یہی کمتری ان کی زندگی میں ان کے ساتھ ساتھ ہو گی۔ یہی محرومیاں ان کے مستقبل پر گہرا اثر مرتب کریں گی، جس کا ازالہ کبھی بھی ممکن نہیں ہو گا۔ اگر اس وقت حکومت، معاشرے اور ہم نے انفرادی طور پر ان بچوں کی جانب توجہ نہ دی تو مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج بر آمد ہوں گے۔ 15 رمضان ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب یتیم بچوں کے دست و بازو بنیں، انہیں معاشرے کا کار آمد فرد بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، تا کہ ملک میں کوئی بچہ بے آسرا نہ ہو۔

آئیں آج ہم عہد کریں کہ کسی یتیم بچے کا مستقبل کسی ورکشاپ کے تیل میں ڈوبنے نہیں دیں گے، کسی ہوٹل کے برتنوں کی کھنکھناہٹ میں ان کی ہنسی دبنے نہیں دیں گے۔ کوئی یتیم بیٹی اپنے سہانے خوابوں کی تعبیر کے لئے کسی بڑے صحن میں جھاڑو نہیں لگائے گی۔ کوئی بیوہ ماں اپنے بچوں کی کفالت کے لئے زمانے کے جبر برداشت نہیں کرے گی، آئیں ہم 15 رمضان کو ایک شمع جلائیں، یتیم بچوں کے سہانے خوابوں کی تعبیر کے لئے تاریک راہوں میں ان کے لئے دیے روشن کریں، تاکہ وہ بھی آفتاب بن کر اس ملک کے افق پر چمک سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).