بچوں کے ساتھ زیادتی: بڑا قصور وار کون؟


آپ کی ایک عدد قیمتی زیور کی دکان ہے جس کی مکمل ذمہ داری کے ساتھ آپ اس کی حفاظت کرتے ہیں، اس سے ہونے والی آمدنی یا فائدہ بھی آپ کو ہی ہوتا ہے۔ ایک روز آپ اس قیمتی دکان پر تالا لگانا بھول جائیں تو کیا وہ دکان یا اس دکان کی اشیاء محفوظ رہ سکتی ہیں؟ دکان کا سارا قیمتی مال چوری ہو جائے تو اس لاپرواہی کی ذمہ داری کس کے اوپر عائد ہوتی ہے آپ پہ یا حکمرانوں پہ؟

ہم کیسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کی ذمہ داری تک اٹھانے کے قابل نہیں، اپنے بچوں کو پیدا کرکے گلی کوچوں میں کُھلا چھوڑ دیتے ہیں اور جب ان کے ساتھ بھیانک حادثات رونما ہو جاتے ہیں تو گریبان حکمرانوں کا پکڑتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک انتہائی دردناک واقعہ پیش آیا سارا سوشل میڈیا پاگل ہوگیا مین اسٹریم میڈیا دیوانہ ہوگیا ہر زبان پر نصیحتیں، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیکچرز اسی طرح اور بھی الم غلم۔ اس کے باوجود ان واقعات میں نہ تو کمی آئی ہے نہ ہی ایسے واقعات کو کنٹرول کیا گیا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

وجہ اپنی غلطیوں کا ادراک نہ ہونا اور اپنی کمیوں یا لاپرواہیوں کا الزام دوسرے کے سَر تھوپنا۔ ہم اپنے ہی گھر میں ایسا ماحول کیوں نہیں بنا سکتے جہاں ہمارے بچے ہماری ہی نظروں کے سامنے محفوظ طریقے سے کھیل کود سکیں لطف اندوز ہو سکیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی میری والدہ نے اپنی کسی اولاد کو گھر سے باہر کھیلنے کودنے یا بِلا ضرورت اکیلے گھر سے نکلنے دیا ہو۔ یہ بات اور ہے کہ اب ہم جوان ہوگئے ہیں سمجھدار ہوگئے ہیں تو ساری دنیا میں اکیلے سفر کر لیتے ہیں۔ لیکن میں یہاں صرف ایک نُکتے کی طرف نشاندہی فرماؤں گی وہ یہ کہ اِن تمام ناگہاں واقعات کے پیچھے سراسر غلطی والدین کی ہے۔ والدین اس قدر لاپرواہ ہو کیسے سکتے ہیں؟

یہ معاشرہ روزِ اوّل سے ایسا ہی ہے اتنا ہی ظالم، اتنا ہی سفّاک، تو پھر اس ظلم سے بچنے کی کوشش کِسے کرنی ہے؟ وہ بھیڑیے جو پہلے ہی منہ کھول کر بیٹھے ہیں کہ جہاں انھیں موقع ملے وہیں وار کر دیں یا وہ جو اِس بات کا اِدراک رکھتے ہیں کہ اِنھیں خود احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم اتنے بے وقوف کیسے ہوسکتے ہیں کہ ظالم سے رحم کی امید رکھیں اور کوئی بھی رِسک لے لیں۔ اپنے بچوں کی حفاظت کرنا خود ہماری ذمہ داری ہے کسی اور کی نہیں اور خاص کر کسی بھی ایسے معاشرے میں تو ہرگز نہیں جہاں ہر طرف ظالم اپنے پھن کاڑھے بیٹھا ہو۔

اپنی ذمہ داری کو اپنا فرض سمجھئیے، بچے پیدا کر کے گلی کوچوں میں چھوڑیں گے تو آگے بھی خدا نخواستہ ایسے ہی واقعات پیش آئیں گے۔ اپنے گھروں کا ماحول صحت بخش بنائیے۔ والدین اپنے قیمتی اوقات میں سے بچوں کے لئے وقت نکالیں، ان کو پڑھائیں، ان کی تربیت فرمائیں، ان کی دلجوئی کریں، ان کو محفوظ تفریح کا سامان مہیا فرمائیں کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے آپ کا فرض ہے۔ سوشلائیز ہونے کے لئے تمام عمر پڑی ہوتی ہے۔ یہ ہرگز کوئی جواز نہیں کہ بچے جب دوسرے بچوں سے ملتے ہیں تو سیکھتے ہیں اور اس کے لیے تو اسکول یا مدارس کا وقت کافی ہوتا ہے۔ میں کل شام سے مختلف احباب کی پوسٹس دیکھ چکی ہوں جو اپنی ہر بھول کا ذمہ دار حکومت وقت کو ٹھہرا رہے ہیں۔ بھئی اس طرح سے اپنی ذمہ داری سے منہ موڑنا انتہائی درجے کی احمقانہ حرکت ہے۔

نوٹ: میں تمام متاثرہ خاندانوں سے انتہائی عاجزانہ انداز میں افسوس کا اظہار کرتی ہوں اور ظالموں کے خلاف اللہ کے حضور عدل کی درخواست پیش کرتی ہوں کہ یہ انسان تو کسی طور قابلِ اعتبار نہ رہا مگر میرا ربّ بہترین منصف و منتقم ہے۔
(انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).