عید مبارک ابو!


داماد رسول اور مومنوں کے امیر حضرت علی کا فرمان ہے، دنیا میں تمہارا سب سے بڑا حامی تمہارا باپ ہے۔ باپ وہ سایہ دار درخت ہے، جو بوڑھا ہو کر بھی اپنی اولاد کے لئے ٹھنڈی چھاوں ہوتا ہے۔

میں تین بھائیوں کے بعد دنیا میں آئی، اکلوتی بیٹی، اکلوتی پوتی اور اکلوتی بھتیجی ہونے کے حساب سے میں نے محبتیں وصول کرنا اپنا حق سمجھا۔ مجھے نہیں یاد، زمانہ طفلی میں کوئی خواہش، حسرت بنی ہو۔ لبوں پر خواہش آنے سے قبل پوری ہو جایا کرتی تھی۔ میں نے کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پہنے اوڑھنے کی ہر نئی چیزوں کو عام ہونے سے قبل پرانا کیا ہے۔ میں نے اللہ کے فضل سے وہ شاہی بچپن گزارا ہے، جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کے نصیب میں کم ہی آتا ہو گا۔

ہمارے یہاں سال میں چار بار شاپنگ کا رواج تھا، یعنی سردیوں میں، گرمیوں میں، چھوٹی عید کے لئے اور محرم کے لئے، ان چاروں دفعہ میں میرے لئے اچھی قیمت والے سوٹ خریدے جاتے، جن کی تعداد بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ یعنی اگر بھائیوں کے دو دو جوڑے ہوتے تو میرے لئے چھے قیمتی فراک لیے جاتے۔ نصابی سال کے آغاز پر میرا ربر تک نیا ہوتا تھا۔ عید پر اضافی عیدی ملا کرتی تھی اور یہ سب بنا طلب کیے مجھے ملا جایا کرتا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ شاید ایسا ہی ہوتا ہو گا کیونکہ دیکھا ہی یہ تھا، مگر زندگی کے حقائق تو 2004 کے بعد پتا چلے جب سب کچھ یکسر بدل گیا۔

30 اپریل 2004 بروز جمعہ 10 ربیع الاول کو میرے سب سے بڑے حامی یعنی میرے باپ کا انتقال ہو گیا۔ تب میں فرسٹ ایئر کی طالب علم تھی۔ مجھے یاد ہے میرے والد مجھے پپیرز دلانے خود لے کر جاتے تھے اور پورا وقت سینٹر کے باہر میرا انتظار کرتے تھے۔ سیکنڈ ایئر کے پیپرز کے دن مجھ پہ قیامت سے کم نہ تھے۔ مذکورہ بالا تاریخ جس روز میرے والد دنیا سے سدھارے، تب آخری مرتبہ میرے باپ نے ایمبولینس میں لیٹے لیٹے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا تھا۔

میں وہ ضدی بچہ، جس کے دماغ میں آ جائے کہ آج ابو مجھے اسکول سے لے کر جائیں گے، ورنہ گھر نہیں جانا۔ میری اس ضدی کو میرا باپ دفتر سے چند گھنٹے کا آف لے کر پورا کرتے۔ 30 اپریل 2004 کو میرے لاکھ بلانے پر آنکھ نہ کھول پائے۔ نہ جانے کیوں آج وہ ساری باتیں یاد آرہی ہیں۔ بلکہ ہر سال میٹھی عید کے قریب آنے پر مجھے یہ سب ایک ایک کر کے یاد آتا ہے۔ جی خوب ہنستا ہے یہ بات سوچ کر کبھی میں بھی شہزادی تھی۔ ہاں اپنے باپ کی شہزادی۔

جب کوئی مسئلہ مشکل ہی نہیں لگتا تھا، ہر پریشانی پر دل یہ سوچ کر قوی رہتا تھا۔ ارے ابو ہیں ناں وہ سب ٹھیک کر دیں گے۔ مجھے بھی ہر بیٹی کی طرح اپنا باپ ایک سپر ہیرو کی طرح لگتا تھا۔ جس کی شہزادی کی آنکھ بھی نم ہو تو وہ گھر میں کہرام بپا کر دے۔ کس نے رنجیدہ کیا میری بچی کو۔ مجھے یاد ہے مجھ سے دس سال بڑا بھائی اکثر ابو سے مار کھاتا تھا کیونکہ وہ مجھ تنگ کرتا تھا اور میں تو تھی ہی اپنے کنگ کی لاڈلی۔

ابو نے کبھی عیدی گھر کے کپڑوں میں نہیں دی۔ ان کا حکم ہوتا کہ جب میں نماز پڑھ کر آوں، تو تم سب تیار ہونا۔ اگر تیاری نہیں تو عیدی نہیں۔ میں عیدی کے لالچ میں جلدی سے تیار ہوتی مگر 2004 کے بعد سے عید کی کوئی تیاری نہیں کی، کیوں کہ اب کوئی عید، عید ہی نہیں۔

ابو کی موجودگی کی عید اور ان کی غیر موجودگی کی عید بہت زیادہ تبدیل ہے۔ جب وہ زندہ تھے تو عید کے روز مسجد سے واپسی پر تیز بیل بجاتے۔ ہم دوڑ کر دروازہ کھولتے اور بلند آواز میں عید مبارک کہتے، ابو بھی پر جوش طریقے سے گلے لگاتے، عیدی دینے میں جان بوجھ کر تھوڑی سی تاخیر کرتے تھے۔ ہم سے تفریح لیا کرتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کی بے چینی دیکھ کر کچھ دیر لطف اندوز ہونے کے بعد، امی سے کہتے، کاظم کی امی زرا دینا وہ پیسے جو میں نے تمہیں دے تھے۔

ہم سب اس جملے پر کھل جایا کرتے تھے اور میری تو ٹور ہی نرالی تھی۔ مجھے تو تین بھائیوں کے حساب سے عیدی ملتی تھی، یعنی اگر بھائیوں کو پانچ سو تو میرے دو ہزار پکے ہوتے تھے۔ ابو عیدی دینے کے خوشگوار لمحات، شیر خورمے پر نذر دینے کے بعد سرانجام دیتے تھے۔ جیسا میں نے پہلے کہا، ابو کی موجودگی اور غیر موجودگی کی عیدوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب عید پر کوئی رونق نہیں ہوتی۔ اب عید کے روز ہم بھائی بہن قبرستان جاتے ہیں اور مٹی کے ڈھیر کو دیکھ کر کہتے ہیں، عید مبارک ابو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).