سائبر بلنگ، ذہنی دباؤ اور بے چینی، خودکشی تک لے جا سکتے ہیں


بلنگ کا مطلب کسی کو تنگ یا زچ کرنے کی غرض سے ذہنی، جسمانی یا جنسی تشدد کرنا ہے۔ بلنگ کا شکار ہمیشہ ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے جو بتدریج ڈپریشن میں ڈھل جاتا ہے۔ جسمانی یا جنسی تشدد ظاہر ہو جاتا ہے لیکن گالم گلوچ یا ٹرولنگ کے ذریعے کی جانے والی بلنگ جلد ظاہر نہیں ہوتی لیکن یہ اپنے شکار کو بری طرح سے گھیر لیتی ہے۔ سائبر بلنگ کسی کو ٹرول کرکے، بے جا تنقید کے ذریعے، نجی گفتگو کو پبلک کر کے، تصاویر کے ذریعے بلیک میلنگ، گروہ بندی کے ذریعے نفرت کے پیغامات یا کمنٹس لکھ کے اور کوئی ٹرینڈ سیٹ کر کے کی جاتی ہے۔

سائبر بلنگ کا شکار سلیبریٹیز سے لے کے عام لوگ تک ہوتے ہیں۔ بہت سے مشہور ادکار اور اداکارائیں بھی اس کا شکار رہے ہیں اور ان میں سے کچھ اس قدر زچ ہوئے کہ انہوں نے خود کشی کرنے تک کا سوچا۔ سائبر بلنگ کچھ لوگوں کے لیے محض تفریح کا ذریعہ ہوتا ہے اس سے وہ اپنی منفی سوچ کا اظہار پردے کے پیچھے بیٹھ کے آرام سے کر سکتے ہیں۔ جو بات آپ براہ راست نہیں کی جا سکتی اسے کسی فیک آئی ڈی سے ٹوئٹر، فیس بک پہ کہنا بے حد آسان ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو باقاعدہ پلانگ کے تحت یہ کام کرتے ہیں اور اس سے بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ اور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

سائیبر بلنگ کے نتائج شکار بننے والے کے لیے ہمیشہ ہی تباہ کن ہوتے ہیں۔ اس کی مثال سندھ میں خودکشی کرنے والی پندرہ سالہ لڑکی کی ہے جس نے تین لوگوں کے گروہ کی لگاتار بلیک میلنگ سے تنگ آ کے جان دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ لوگ اس سے پچاس ہزار لے چکے تھے اور محض تصاویر کو ایڈیٹ کر کے اسے زچ کر رہے تھے اسی وجہ سے اس کی منگنی بھی ٹوٹی۔ اور یہی وجہ اس کے ذہنی دباؤ میں اضافے کا باعث بھی بنی۔

جس گھٹن ذدہ سماج کا ہم حصہ ہیں اس میں ریپوٹیشن یعنی شہرت کردار سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس سماج میں تو ریپ کے شکار اگر جان سے چلا جائے تو کہتے ہیں شکر ہے اچھا ہوا ورنہ زندگی عذاب ہو جاتی اس کی بھی اور گھر والوں کی بھی۔ بجائے اس کہ مجرم کو برا سمجھا جائے اس کے عمل کو قابل مذمت سمجھا جائے تو ایسے سماج میں ایک لڑکی یا حتی کہ سائبر بلنگ کا شکار ہونے والے لڑکے کے لیے بھی سروائیول کی جگہ کہاں بنتی ہے۔ اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ ایک تو سماج کا خوف اور اس کے بنائے گئے کردار اور پاکیزگی کے پیمانے۔ اس خبر پہ بھی میں نے لوگوں کے بے رحم کمنٹس پڑھے جو بات کی تہہ تک پہنچے بنا کہہ رہے تھے کہ فیس بک نہ چھوڑی دنیا چھوڑ دی اس بات سے معاشرے کی سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دوسری بات گھر والوں کا خوف ہے۔ والدین اپنی اولاد سے اتنا فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں کہ بچے اپنی غلطی والدین کو بتاتے ہوئے خوف کھاتے ہیں کہ مدد کی بجائے مزید مسئلہ ہو جائے گا۔ یہ بھی سماجی پہلو ہی ہے کہ احترام کے نام پہ اتنا فاصلہ پیدا کر لیا جائے کہ والدین اور اولاد میں کمیونیکیشن گیپ پیدا ہو جائے۔

یہ دونوں باتیں بلیک میلر کا حوصلہ بڑھانے کو کافی ہوتی ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھا کے وہ اپنے عزائم پورے کرتے ہیں۔

سائبر بلنگ سے ہونے والا ذہنی دباؤ بھی بتدریج بڑھتا ہے۔ پہلے اعتماد کے ٹوٹنے سے لے کے اپنی ریپوٹیشن خراب ہونے کے خوف سے بترریج یہ بد ترین ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی کی وجہ نیند کی کمی، نظام انہضام کے مسائل، ڈپریشن، خودکشی کے خیالات جنم لیتے ہیں۔

اس کے مجرم کہیں نہ کہیں اپنے شکار کے قریب رہے ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا ہتھ کنڈا سو کالڈ آزادی اظہار رائے ہے اس میں وہ ہر طرح کی ٹرولنگ کو جائز قرار دیتے ہیں

دوسرا وہ اپنی باتوں سے یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خیر خواہ ہیں۔ اور غلطی شکار ہونے والے کی ہے۔ جبکہ وہ اندر گہرائی سے نفرت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔

وہ اپنے شکار کو ہر ممکن طریقے سے اذیت پہچاتے ہیں تاکہ وہ ذہنی دباؤ میں آ کے کچھ اور نہ سوچ سکے۔

تیسری بات وہی سماج کا دباؤ ہے جو مجرموں کو شہہ دیتا ہے کہ وہ اپنی عزت بھی بنائے رکھیں اور پردے میں رہ کے گھناونا کام بھی کر سکیں۔

سائبر رابطے جس تیزی سے پھیل چکے ہیں اور جتنی آزادی آج لوگوں کو آزادی اظہار رائے کی ہے ایسا چند سال پہلے خواب تھا۔ ہم یہ آزادی تو حاصل کر چکے ہیں لیکن خود میں تہذیب پروان نہیں چڑھا پائے۔ ہم نہیں جانتے کہ اگر کسی منفی سائبر سرگرمی کا شکار ہم بن رہے ہیں تو اسے کیسے نمٹا جائے۔ والدین اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ بچوں کاخیال کس طرح سے رکھا جائے۔

قانونی مدد قدرے پیچدہ عمل ہے اسے سادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر جس انداز سے اس طرح کے معاملے کو سوشل میڈیا پہ ٹیکل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ معاملات کو اور بھی ابتر کر دہتی ہے۔ کیونکہ ٹیکل کرنے کی کوشش کرنے والے یا ایسا کرنے کا پوز کرنے والے بھی اسی جوہڑ کا حصہ ہیں جہاں یہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس حوالے میں بھی شعور کی ضرورت ہے کہ آپ اپنے الفاظ کے لیے ذمہ دار ہیں۔ کسی کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا یا اس کاوش کا حصہ بننا مذاق نہیں ہے۔

خود کشی دراصل خود کشی نہیں ہوتی ایک قتل یوتا ہے جس میں بہت سے بے نام قاتل شامل ہوتے ہیں شاید ہماری کہی گئی کوئی بات بظاہر کوئی مذاق، ٹوہ لینے کی غرض سے پوچھا گیا چبھتا سوال، کوئی نان وربل اشارہ ہمارے لیے محض وقت گزاری ہو اور کسی کے لیے زندگی بھر کا عذاب۔ ہمیں اپنی تربیت خود کرنا ہوگی سائبر بلنگ سے بچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا عام زندگی میں مار پیٹ بے جا دھونس سے بچنا اور یہ اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا کہ کسی کو بلاوجہ زد وکوب کرنا بلکہ شاید اس سے بھی بڑا کیونکہ اس کی پہنچ بہت وسیع ہے اور اس سے بحال ہونا بھی بہت تکلیف دہ اورٹائم ٹیکنگ ہے۔ اس سے بچنا اور شکار کو بچانے کے لیے کوشش اپنے طور پہ ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ شعور ہم خود ہی پھیلا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).