ایران پر ممکنہ امریکی حملے کے بعد پاکستان کے مشکلات


یہ بات یقینی نہیں کہ امریکہ ایران پر فوری حملہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ امریکی بحری بیڑہ کی بحیرہ فارس کی طرف روانگی مچھلیاں پکڑنے کے لئے نہیں۔ اگرچہ صورتحال ایسی نہیں کہ جنگ کیے بغیر کوئی راستہ نہیں لیکن جنگ میں چونکہ کم ازکم دو فریق ہوتے ہیں اس لیے یہ فریقین پر ہے کہ وہ جنگ چاہتے ہیں یا جنگ سے گریز چاہتے ہیں۔ چونکہ امریکی ٹیم میں موجود نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائک پومپے جنگ پسند شخصیات ہیں۔ اس لیے جنگ کے چانس امن کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ صرف امریکی اور اسرائیلی حکومتیں ایران پر پابندیوں اور حملے کے حق میں نہیں مسلمان عرب ممالک سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات بھی ایران کی پالیسیاں اپنے لئے خطرناک سمجھتے ہیں اور حالات کو مناسب سمجھ کر امریکہ کا ساتھ دامے درمے سخنے دے رہے ہیں۔

ایران پر امریکہ حملہ کرتا ہے تو سب سے مشکل صورتحال پاکستان کی ہوگی۔ کیونکہ امریکی حملے میں سب سے زیادہ دلچسپی سعودی عرب لے رہا ہے۔ اب ایسی صورتحال میں پاکستان کیا کرے گا؟ سعودی عرب کے ساتھ دینی اور تیلی بھائی چارہ نبھائے گا یا ایران کے ساتھ ہمسایہ بن کر ہمدردی اور امداد کریگا؟ اگر پاکستان جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ دیتا ہے تو معاشی مسائل سے وقتی نجات کے ساتھ ساتھ مفت کی تیل مل سکتا ہے۔ گوادر اور سی پیک میں وقتی طور پر امریکی مداخلت رک سکتی ہے۔

پاکستان پر مختلف قسم کی خفیہ اور ظاہر پابندیوں اور پریشر میں کمی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کو اپنی شیعہ ابادی کے مجروح جذبات، احتجاج اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا بلکہ مسلح قسم کی گڑبڑ بھی متوقع ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں اور خصوصاً کراچی میں شیعہ افراد کی خاموشی سے پکڑ دھکڑ اسی تناظر میں حفظ ماتقدم کے ایک عمل کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی کارروائیاں شدت اختیار کرے گی۔

گوادر میں مسائل بڑھ جائیں گے۔ اور بلوچستان مزید غیرمستحکم ہوجائے گا۔ جو امریکی حملے کے مقاصد میں سے بھی اہم اور بنیادی مقصد ہے۔ اس لیے ایسا کرنا پاکستان کے لئے کافی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ حال ہی میں وزیر خارجہ کے، جنگ کے دروان پاکستان کی غیر جانبداری والے بیان کو پاکستان میں موجود ایران دوست طبقے، منفی معنوں میں لے گی اور اس کو پاکستان کی طرف سے امریکہ کے لئے ایک واک اوور ظاہر کرے گی۔ ویسے بھی، پاکستانی حکومت اور طاقت کے سرچشمے، لگتا ہے ایران کے بارے میں ایک پیج پر نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے پچھلے مہینے کے ایران کے دورے سے ایک دن قبل پاکستان کے وزیر خارجہ کے پریس کانفرنس اور ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ بلوانا، محض اتفاق سمجھا جائے یا وزیراعظم کے دورے کو عمدا ناکام اور کافی مشکل بنادینے کی کوشش۔ حالانکہ وزیر خارجہ کے فرائض اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ مزید برآں وزیر اعظم کے ساتھ ایران نہ جاکر وزیر خارجہ نے کھلم کھلا اپنے آپ کو مخالف کیمپ میں ظاہر کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں طاقتور، ایران مخالف لابی سے موجود ہے۔ جس کی زور پر وزیر خارجہ آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔

اگر پاکستان سعودی عرب یعنی امریکہ کے ساتھ ممکنہ لڑائی میں ساتھ نہیں دیتا تو پاکستان میں ڈالر مزید ناپید ہوجائے گا، پابندیاں، الزامات اور مصائب روزانہ آتے رہیں گے جس کی بناء پر ملک غیر مستحکم ہوسکتا ہے۔ علیحدگی پسند تحریکیں اور تخریب کاری زور پکڑ سکتی ہے۔ سفارتی دباؤ، بین القوامی تنہائی، قرضوں کے حصول میں مشکلات اور واپسی میں سختی، تجارتی اور سفری پابندیاں اور سب سے بڑھکر اندرونی خلفشار کا سامنا ہوسکتا ہے۔

بلوچستان میں صورتحال بدتر اور مغربی سرحدات گرم ہوسکتے ہیں۔ جبکہ مشرقی سرحد اور خاصکر کشمیر میں ناقابل فراموش دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے۔ سی پیک کو بد ترین مخالفت اور سبوتاژ کا سامنا ہوسکتا ہے اور گوادر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاک چین تعلقات پر برے اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں۔ مزید برآں جنگ کا دائرہ پاکستان کے اندر تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ علاقے کو غیر مستحکم کرکے اس جنگ کے لپیٹ میں پاکستان لینا مقصد اولی لگتا ہے۔

ایران کے پاس کوئی قابل ذکر جنگی جہاز یا امریکہ سے بہتر ہتھیار نہیں امریکہ کسی بھی وقت اسے دبوچ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مالی اور اندرونی سیکورٹی کی صورتحال روزانہ کی رفتار سے کیوں خراب ہوتے جا رہے ہیں؟ ممکن ہے یہ جنگ ایرانی سرحدوں سے رس کر داعش قسم کی دہشت گرد سرگرمیوں سے پاکستان کو دوچار کردے۔

اگر پاکستان غیر جانبدار رہتا ہے تو پھر بھی اندرونی خلفشار احتجاج اور سبوتاژ کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اور کیا پاکستان واقعی غیر جانبدار رہ کر اندرون ملک کے شیعہ احتجاج اور سرحدات پر رونما ہونے والے حالات سے بے پرواہ رہ سکتا ہے۔ جبکہ امریکہ اور سعودی عرب کی شدید خواہش ہے کہ ہم افغانستان کی طرح اس جنگ میں بھی ان کے ساتھی بنے رہیں۔

لگتا ہے نواز شریف کی حکومت کو نامعلوم مد میں دی جانے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی امداد بھی اس سلسلے میں دی گئی تھی۔ جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نواز شریف کو حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ بیماری کی حالت میں جیل خانے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں قطری خط، قطری شہزادے کی پاکستانی عدالت میں حاضری پر آمادگی، پھر قطر پر لگنے والی پابندیاں اور شہزادے کی عدالت میں حاضری سے اجتناب کو مدنظر رکھا جائے تو بہت کچھ سمجھ آجاتاہے۔

ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں اس سلسلے میں کافی باخبر اور تیار ہوتی ہیں۔ کیونکہ جب بھی کوئی بین الاقوامی ایونٹ اس خطے میں منعقد ہونے کی صورتحال ہوتی ہے تو وہ ملک میں پہلے مناسب تبدیلی کر دیتی ہیں۔ جیسے افغانستان میں روس کی آمد سے پہلے ضیاء اور 9 / 11 سے پہلے مشرف لیکن اس دفعہ صورتحال اتنا مشکل، گنجلک اور کئی رخوں پر مشتمل ہے کہ تبدیلی ( عمران خان) لانے کے باوجود بھی خاطر خواہ نتائج نہیں مل رہے۔

پھر پاکستان غیر جانبدار رہنا بھی چاہے اور امریکی حملے کے دوران، داعش جس کے بارے میں بین الاقوامی اخبارات اور رسائل میں انکشافات ہورہے ہیں کہ مغرب اور امریکہ کی پیداوار ہے، پاکستانی بلوچستان سے ایران میں گھس جائے، یا بلوچ علیحدگی پسندوں کو ایران اپنی سرحد سے پاکستان میں گھسا دے، جنگ کی شدت سے ایرانی مہاجرین اور فوجی پاکستان میں پناہ لینے اجایں، اگر پاکستان میں موجود ایران پسند، پاکستان سے ایران میں گھس کر امریکہ پر حملہ کردیں، اگر امریکہ گوادر پر قبضہ کرکے ایران کے خلاف اڈے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دے، پاکستان کی غیر جانبداری کی صورت میں اگر سعودی عرب لاکھوں پاکستانیوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرے، غیر جانبداری کی صورت میں امریکہ کی ہلہ شیری سے بھارت مشرقی سرحدوں پر کشیدگی بڑھائے اور کشمیر میں مداخلت کردے، افغانستان امریکی مرضی سے پاکستان کے ساتھ مشترکہ بارڈرز پر صورتحال خراب کردے تو کیا پاکستان اس حالت میں غیر جانبدار رہ سکتا ہے۔

پاکستان میں موجود مذہبی اور فرقہ واریت پر مبنی فالٹ لائنز پہلے سے موجود ہیں۔ جنگ کی صورت میں مسجد و منبر سے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اس کا مظاہرہ آسیہ مسیح کے کیس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جبہ و دستار والے امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کریں گے یا سعودی فنڈنگ لے کر جنگ کو جائز قرار دیں گے آور پاکستان کے اندر ایک خونریز فرقہ وارنہ کشمکش کی شروعات کرائینگے۔

امریکہ نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ اسرائیل کے اردگرد گرد ایرانی اثرات، یعنی شام وغیرہ کو تباہ کرکے بندوبست کیا گیا۔ چینی صدر ابھی ابھی امریکہ کا دورہ کرکے گیا ہے جس نے اپنے مفادات محفوظ بنائے ہوں گے۔ مائیک پومپے روس سے ہوتا ہوا یورپ چکر لگا چکا ہے۔ یورپ ایرانی حملے کے خلاف نہیں صرف اپنے لئے جنگ کے بعد مال غنیمت میں مناسب حصہ کھرا کرنا چاہتا ہے۔

اس قسم کی صورتحال سے پاکستان کیسے عہدہ برا ہوگا اس کے لئے بہت ساری دانش، بہترین حکومتی حکمتِ عملی، فوجی اور قومی یکجہتی اور خوش نصیبی کی اشد ضرورت ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani