آئی سی یو اسپیشلسٹ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور پاکستانی معیشت


جب فروری 2013ء میں وزرات کے استعفے سے پہلے ڈاکٹرعبد الحفیظ شیخ سے ایک صحافی نے سوال کیا ”کیا آپ اس عرصے میں اپنی کارکردگی بتا سکتے ہیں؟“ انہوں نے ایک منٹ سوچنے کے بعد جواب دیا ”کیا آپ نہیں سمجھتے کہ کوئی مریض جو آئی سی یو میں ہو۔ اس کی نگرانی کرنا کارکردگی ہے؟“ یہ تقریباً چھے سال پہلے کا جواب تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور ختم ہو رہا تھا۔ اور نگران حکومت آنے والی تھی۔ حفیظ شیخ صاحب تین سال تک وزیر خزانہ رہے تھے۔

انہیں پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ سے الیکشن لڑوا کر ایم این اے اور پھر وزیر خزانہ بنایا تھا۔ تب چارج سنبھالتے وقت بھی پاکستانی معیشت آئی سی یو میں تھی اور اب بھی مریض کی حالت جوں کی توں ہے۔ ان تین سالوں میں بھی ملک کے اندر سے ان کی پالیسیوں کی شدید مخالفت تھی۔ تاجر’’جی ایس ٹی‘‘ دینا نہیں چاہتے تھے۔ سرکاری کاروباری اداروں کو نجی شعبے کے سپرد کرنا، تب بھی ایک بڑا مسٔلہ تھا۔ اب بھی 195 سرکاری کاروباری ادارے قومی وسائل پر ایک بڑا بوجھ ہیں۔

جناب شیخ نے آتے ہی پاکستان سٹیل مل کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سرکاری خزانے پر یہ بوجھ ستر کی دہائی میں پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالا تھا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ حفیظ شیخ غیر سیاسی آدمی ہیں۔ البتہ ان کے والد نے پیپلز پارٹی کی تشکیل کے ابتدائی زمانے میں پارٹی کے لئے کام کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی اپنے ٹیکنیکل ساتھیوں کی ٹیم بنا لی ہے۔ یہ ٹیم ڈاکٹر ندیم الحق، شاہد کاردار، عبد الواجد رانا، ڈاکٹر وقار مسعود اور سلمان صدیق پر مشتمل ہے۔

اس ٹیم میں مشرف دور کے واجد رانا شامل ہیں۔ انہیں بہت جلد ڈپٹی چئیرمین پلاننگ ڈویژن بنایا جا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت شدید افراط زر ہے۔ شرح نمو بھی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، اور گزشتہ 10 ماہ میں روپیہ اپنی 21.7 فیصد قدر کھو چکا ہے۔ مضمون شایع ہونے تک مزید جھٹکا بھی لگ سکتا ہے۔ کاروباری حلقوں میں شدید غیر یقینی صورت حال ہے۔ ملک کے اندر سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ چھپا لیا ہے۔ ایسی صورت حال میں باہر سے کسی نے کیا آنا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اثاثے ظاہر کرنے کی سکیم کا اعلان کیا ہے۔ چند ماہ بعد اسی کے اثرات کا پتا چلے گا۔ بڑے معاشی عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بدل دیا گیا ہے۔ ایف بی آر میں شبر زیدی کو اس امید پر لایا گیا ہے کہ آمدنی بڑھے گی۔ مسٹر رضا باقر کو آئی ایم ایف سے لا کر تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام فائنل ہونے سے پہلے ہی شرح بنک اور انرجی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ یہ رد و بدال آیندہ بھی ہوتا نظر آتا ہے۔

مریض کو آئی سی یو میں رہتے ہوئے نگرانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ساتھ کچھ ٹیکنیکل لوگ شامل کر لیے ہیں، کچھ ابھی اور بھی لینے ہیں۔ لیکن یہ تمام تواپی ٹی آئی سے باہر کے لوگ ہوں گے۔ پھر تحریک انصاف کے نعروں جن میں 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں شامل تھیں۔ اس کا کیا بنے گا۔ جب تک مریض شدید نگرانی کی حالت میں رہے گا۔ نوکریاں تو الٹا کم ہوتی رہیں گی۔ اور آزاد معیشت دان یہی اندازہ لگا رہے ہیں۔

ان کے مطابق آیندہ تین سالوں میں دس لاکھ روزگار کے مواقع کم ہوجائیں گے۔ آئی ایم ایف سے پروگرام سوا تین سال یا 39 ماہ پر مشتمل ہو گا۔ اور یہ 2022ء کے آخر تک چلتا رہے گا۔ اس کے بعد آنے والے الیکشن سے پہلے عمران خان کے پاس صرف 9 ماہ ہوں گے۔ ان 9 ماہ میں وہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکیں گے۔ پیکیج کے سالوں میں صرف وہ کام ہو سکے گا۔ جس کی منظوری پیکج دینے والا ادارہ کرے گا۔ ملک کی صورت حال اس صورت حال سے مختلف نظر آ رہی ہے جس کا وعدہ عمران خان نے قوم سے کیا تھا۔

آئی ایم ایف کی یہ بھی شرط ہے کہ جو قرض 3 دوست ممالک سے لیا گیا ہے، اس کی واپسی معطل کرنی ہے۔ یہ رقم 8 بلین ڈالر کے برابر ہے۔ یہ تینوں ممالک اپنے قرض کی واپسی کو معطل کرنے پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔ مستقبل ہی بتائے گا۔ پاکستان کو اس عرصے میں ساختی اصلاحات کا یقین دلانا ہے۔ اور ایسی پالیسیاں بنانا ہے جس سے کچھ نہ کچھ معاشی ترقی ہوتی رہے۔ غیر ملکی امداد اسی وقت کام کرتی ہے، جب اندرون ملک فیصلہ کن پالیسیاں اور ساختی اصلاحات ہوتی رہیں۔

صرف یہی صورت ہے جس سے ہم مریض کو آئی سی یو سے نکال سکتے ہیں۔ ملک کے اندر کاروباری لوگوں کا اعتماد گزشتہ 10 ماہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان کا عتماد بحال کرنے سے ہی معیشت دوبارہ پٹری پر چڑھ سکتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر ہی روزگار کی فراہمی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ انرجی سیکٹر کے پیداواری اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ انرجی کے ریٹ میں مزید اضافہ سے عوام سڑکوں پر آ جائیں گے۔ اپوزیشن نے بھی اشارہ دے دیا ہے۔

موجودہ پیکج کے حوالے سے اپوزیشن کے پاس کہنے کے لئے 2 نکات بڑ ے اہم ہیں۔ یہ پیکج اتنی دیر سے کیوں لیا گیا ہے؟ حالات اتنے خراب نہ ہوتے اگر یہ کام حکومت کے آنے کے فوراً بعد کر لیا جاتا۔ دوسرا اعتراض اپوزیشن یہ کرے گی کہ پیکج کی مالیت صرف 6 ارب ڈالر ہے۔ جبکہ پاکستان کو سالانہ 12 ارب ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔ اور بھی بہت سی باتیں بنائی جا سکتی ہیں۔ حفیظ شیخ کی ٹیم کو ایک بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ سرکاری کاروباری اداروں کے نقصان سے کیسے جان چھڑائی جائے۔

ماضی میں ان اداروں کی اصلاحات کے تمام پروگرم ناکام ہو چکے ہیں۔ مشرف کے زمانے میں حفیظ شیخ نے 34 سرکاری اداروں کو پرائیویٹ شعبے کے حوالے کیا تھا۔ اور حکومتی وسائل پر بوجھ کافی کم ہوگیا تھا۔ لیکن تب ملک میں فوجی اور با اختیار صدر تھا۔ اب اپوزیشن خاص طور پر پیپلز پارٹی نجکاری کے راستے میں رکاوٹ بنے گی۔ سیاسی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے نجکاری کا مسٔلہ بڑا پیچیدہ نظر آتا ہے۔ لیکن پیکج دینے والے اور ڈاکٹر حفیظ شیخ دونوں نجکاری چاہتے ہیں۔

اس راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ملک کی فی کس آمدنی آٹھ فیصد کم ہو کر 1550 ڈالر پر آ گئی ہے۔ یہ تمام سکے کی کم قدری کی وجہ سے ہوا ہے۔ معیشت کا مجموعی حجم 313 ارب ڈالر سے کم ہو کر 280 ارب ڈالر تک آ گیا ہے۔ شرح نمو کا ٹارگٹ موجودہ مالی سال میں 6.2 فیصد تھا۔ لیکن اس وقت شرح نمو 3.29 فیصد ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک سال میں زراعت کی شرح نمو کم ہو کر صرف آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد رہ گئی ہے۔ حالانکہ رواں سال کے لئے یہ ٹارگٹ خاصا اونچا طے کیا تھا۔

ایسے ہی صنعتی شعبے کا ٹارگٹ 7.6 فیصد تھا۔ جو اس موجودہ ماہ میں 1.4 فیصد ہے۔ اورایسے ہی سروس سیکٹر کے حالات بھی بہتر نہیں ہیں۔ موجودہ مالی سال کے لئے طے کردہ بچتوں اور سرمایہ کاری کے ٹارگٹ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ معیشت کے تمام کلیاتی اشاریے زوال کا شکار نظر آتے ہیں۔ موجودہ آئی ایم ایف کے پیکج سے پاکستان کی ضروریات توپوری نہیں ہوں گی۔ البتہ عالمی بنک سے ہم مزید 2 ارب ڈالر لے سکیں گے۔ جب حالات اتنے خراب ہوں تو ہم کسی بانڈ کا اجرا نہیں کر سکیں گے۔

البتہ جب موجودہ حکومت آئی تھی تب بانڈ کا اجرا ہو سکتا تھا۔ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ان کی تجربہ کار ٹیم کے لئے حالات ایسے ہی ہیں۔ جیسے 2010 ء میں تھے۔ مریض تب بھی آئی سی یو میں تھا اور اب حالات اس سے بھی برے ہیں۔ پوری قوم کو معاشی ٹیم کے ساتھ تعاون کرناچاہیے۔ تا کہ ڈوبتے ہوئے جہاز کو بچایا جا سکے۔ ہم سب 22 کروڑ لوگ اس میں سوار ہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ دوسری سیاسی پارٹیوں سے مل کر ایک میثاق معیشت بنائے۔ آیندہ انتخاب کوئی بھی جیتے لیکن طے شدہ معاشی پالیسیوں پر عمل ہوتا رہے۔ امید ہے کہ ہم مشکل حالات سے نکل آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).