آپ بھی بے رحم ہو جائیں


ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب کسی کی اولاد کو کوئی زخم لگ جاتا ہے، تو وہ فوری طور پر اس کی مرہم پٹی کرواتا ہے۔ اپنے تئیں بہترین ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ اچھی سے اچھی دوا لینے کی کوشش کرتا ہے تا کہ زخم خراب نہ ہو اور جلد سے جلد ٹھیک ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے بچے کو زخم لگنے کے بعد اسے خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کا مظاہرہ کرتا نظر آئے یا پھر کسی ایسے شخص سے اس کی دوا لیتا نظر آئے کہ جس کی دوا سے ہر کسی کا زخم خراب ہی ہوتا آیا ہو، یا پھر وہ زخم پر صرف کپڑا باندھ دے تا کہ کسی کو نظر آئے تو ایسے شخص کی عقل پر ناز کیا جائے یا ماتم؟

ہر ترقی یافتہ یا تیزی سے ترقی پذیر ممالک کے حکمران ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہیں، جو اپنے ملک کا خیال اپنی اولاد کی طرح رکھتے ہیں۔ اس کے مسائل پر بے چین ہوتے ہیں اور حل کے لئے کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی ملک آپ کو تیزی سے ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ اس ملک کے حکمرانوں نے اپنی اولاد کا خیال ایسے ہی رکھا ہے، جیسے ایک نشہ کرنے والا باپ رکھتا ہے، جسے صرف اپنے نشے سے سروکار ہوتا ہے۔ ہمارے وطن عزیز کے حکمرانوں کو بھی ایک ہی نشہ رہا ہے، وہ ہے دولت جمع کرنے کا نشہ۔ اسی لئے بے چارہ ملک تو ہمیشہ کنگال رہا مگر ان کے دولت کے انبار بڑھتے گئے۔

پچھلے حکمران اسی نشے کی لت میں رہے اور ملک کے زخم یعنی مسائل پر سب اچھا ہے، کی پٹی باندھتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر زخم خراب ہوتا گیا اور اب ناسور بن کر بد بو دینا لگا ہے۔ بے روزگاری سے لے کر معیشت تک اور امن امان سے لے کر ننھے فرشتوں کی آبرو ریزی کے بعد سفاکانہ قتل تک ہر زخم ایک ناسور ہے اور یہ ناسور اس حد تک خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے کہ اصلاحات کی دوا سے علاج ممکن ہی نہیں ہے۔

آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ ایک وقت تھا کہ جب ملک میں دہشت گردی کا عفریت اپنے خونی پنجے پوری طرح گاڑ چکا تھا۔ روز بم دھماکے اور اس کے نتیجے میں درجنوں یا سیکڑوں ہلاکتیں معمول تھیں۔ اس وقت طالبان سے مذاکرات جیسی دوا تجویز کی گئی اور پھر اس دوا کے استعمال کے دوران ہی آرمی پبلک اسکول کے سانحہ جیسا درد ہمیں برداشت کرنا پڑا۔ اس کے فوری بعد فیصلہ کیا گیا کہ دوا کے بجائے آپریشن کیا جائے، تا کہ یہ زخم ہمیں مزید زخمی نہ کر سکے۔ اس کے بعد کراچی سے لے کر وزیرستان تک اس زخم کا آپریشن کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کا زخم اپنے علاج کو پہنچا۔

ملک میں صرف یہی ایک زخم نہیں تھا۔ ہر مسئلہ ایک زخم ہے اور آپریشن طلب ہے۔ پولیس اصلاحات کو بھول جائیں۔ ہر اغوا، ہر زیادتی، ہر قتل کی ایف آئی آر نامعلوم کے بجائے اس علاقے کے تھانے کے ایس ایچ او پر کاٹیں اور اس کو اس کا ذمہ دار قرار دیں۔ اس کے بعد دیکھیں عزت اور جان تو دور کی بات، کسی بچے کا کوئی کھلونا تک چھین نہیں پائے گا۔

کرپشن پر ایمنسٹی کے مرہم کے بجائے چائنا ماڈل کا آپریشن شوٹ کا حکم جاری کریں، پھر نوٹ کرتے جائیں کہ کرپشن کے کتنے فی صد جراثیم آپ کی معیشت کے زخم کو خراب کرنے کے لئے بچ جاتے ہیں۔

ملاوٹ کرنے والا، ذخیرہ اندوز تاجر کا کارخانہ، فیکٹری یا کمپنی اس کے سامنے جلا کر راکھ کر دیں یا پھر اس کی تمام دولت بحق سرکار ضبط کا فرمان جاری کر دیں۔ پھر دیکھیں کون ملاوٹ یا ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ کسی بھی محکمے میں تعینات سرکاری افسر جو کام چور ہو یا رشوت خور ہو، اسے معطل کرنے کے بجائے نوکری سے فارغ اور ملازمت کے دوران لی گئی تمام تنخواہ واپس سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم جاری کیجیے۔ پھر دیکھیں کتنے لوگ رشوت خوری یا کام چوری کرتے ہیں۔

آخر میں ملک کے مقتدر حلقوں سے میری گزارش ہے کہ آپ ملک کے تمام مسائل پر نظر کریں اور مسئلے کا علاج آپریشن سے کریں۔ ایک ڈاکٹر جب آپریشن کرتا ہے تو وہ رحم کے بجائے پیشہ وارانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کیوں کہ اگر رحم کا مظاہرہ کرے گا تو اس کے ہاتھ میں تیز دھار آلہ کانپے گا، جس سے اس نے زخم کو کاٹنا ہوتا ہے۔ آپ بھی رحم کے بجائے علاچ پر توجہ دیں۔ آپریشن پر توجہ دیں۔ غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے لئے جاتے ہیں۔

اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے اس سے زیادہ غیر معمولی کیا ہو گی۔ خدارا جاگ جائیں۔ اور غیر معمولی فیصلے لیں اور اس ملک کے ہر زخم کو ٹھیک کریں۔ عوام پر بے رحم ہو کر ٹیکس پر ٹیکس لگانے کے بجائے زخم اور اسے خراب کرنے والے جراثیموں پر بے رحم ہو جائیں۔ حالات اور جراثیم بے رحم ہیں۔ خدارا آپ بھی بے رحم ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).