سول سروسز اکیڈمی میں ہم پر کیا بیتی


سی ایس یس (مقابلے کا امتحان) پاس کرنے سے پہلے ہم اپنے پیش رو افسران اور عوام سے سنتے آئے تھے کہ اگر روئے زمین پر کوئی مکانی جنت ہے تودہ سول سروسز اکیڈمی ہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں تو ایک طرف رہیں وہاں قیام و طعام کی ایسی آسائشیں بہم پہنچائی جاتی ہیں جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بہر کیف انجینئر ہونے کے باوجود ہم نے سی ایس ایس کر لیا۔ کیا پتا تھا کہ ہمیں ورغلایا گیا ہے اور اب سات ماہ کی قید بامشقت کاٹنی پڑے گی۔

بہر حال وہاں بسر ہونے والے آیندہ سات مہینوں کا حسین تصور لیے ہم اکیڈمی پہنچ گئے۔ داخلی دروازے سے جونہی اندر داخل ہوئے تو ایک نہایت قدیم عمارت پہ نظر پڑی۔ ہم سمجھے کہ شاید یہ عمارت محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے اور اس سے پیش رو افسران بالا کی چند یادیں اور نوادرات وابستہ ہوں گی، جن کی نمایش سے وقتا ََ فوقتاً ہمارا جذبہ افسری از سر نو تر و تازہ کیا جائے گا۔ لیکن چوکیدار سے پتا چلا کہ یہ انتظامی بلاک ہے اور اس میں فیکلٹی کے چند معزز ارکان کے علاوہ کوئی قدیم چیز نہیں۔

ہم اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔ اسی چوکیدار نے یہ بھی بتایا کہ اسی عمارت کی بالائی منزل یعنی کوٹھے پر آپ کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہم اپنا ساز و سامان لے کر پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے اوپر پہنچے کیونکہ سیڑھیوں کے خستہ قدمچوں کا کوئی بھروسا نہیں تھا۔ پتا چلا کہ نائب قاصد صاحب ابھی تشریف نہیں لائے اور کمرے کے قفل کی چابی ان کے پاس ہے۔ چوکیدار نے جو ہمارے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا تھا، ہمیں ٹی وی کے کمرے میں استراحت کرنے کو کہا۔

ٹی وی روم پہنچے تو وہاں قبرستانوں جیسی ناگوار سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے پہلے اس کمرے کا استعمال اسے آسیب زدہ سمجھ کر متروک کر دیا گیا تھا اور اب پرانے کاٹھ کباڑ کو صاف کر کے عارضی طور پر قابل استعمال بنایا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے وہاں ایک عدد بزرگ ٹی وی موجود تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے اسے چلایا تو کسی بھی چینل پر تصویر نہیں تھی۔ آواز البتہ آ رہی تھی۔ شاں شاں کی آواز۔ ہم ڈر سے نجات پانے کے لیے اسی آواز سے سمع خراشی برداشت کرنے لگے۔

ٹی وی کے کمرے میں ہمارے بیٹھنے سے وہاں مستقل سکونت پذیر مچھروں کو بڑا فائدہ ہوا۔ وہ طویل عرصے سے انسانی خون کے متلاشی تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہمارے میٹھے خون سے اپنا طویل روزہ افطار کیا۔ تقریبا ً ایک گھنٹے بعد ایک صاحب خراماں خراماں تشریف لائے۔ ان کی چال ڈھال دیکھ کر ہم نے گمان کیا کہ شاید کوئی بابو ہیں۔ تفصیلی تعارف پہ پتا چلا کہ وہی ناہنجار ہمارے ہاسٹل کا نائب قاصد ہے۔ ہم اسے صرف یہی کہہ سکے:

؎ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

ان صاحب نے ایک ڈربا نما کمرا کھول کر ہمیں اس میں جانے کا اشارہ کیا۔ اکثریت کے برعکس اکیلا اور تن تنہا کمرا پا کر خوشی سے ہماری باچھیں کھل گئیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ کمرے میں نہ تو ٹھنڈی مشین (اے سی) تھی او ر نہ ہی آب رواں والا پنکھا (ایئر کولر)۔ ہم نے سست رفتار چھتی پنکھے کو غنیمت جانا اور اپنا سامان وہاں رکھ دیا۔ اس ہاسٹل میں زمانہ قدیم کے شاہی حماموں کی طرح اجتماعی غسل خانے تھے اور ہمیں یہ خیال ستانے لگا کہ ہر روز ایک ہاتھ میں تولیہ اور دوسرے ہاتھ میں صابن تھام کر قطارِ غسل میں لگنا پڑے گا۔ بعد میں یہ بھی پتا چلا کہ پانی بھی افسرانہ ادا کے ساتھ آتا ہے اور بعض اوقات دوران غسل بند بھی ہو جاتا ہے۔

بعد ازاں ہم تیار ہو کر اپنے نام اور کوائف کا اندراج کرانے مرکزی ہال میں پہنچے تو وہاں انواع و اقسام کے سوٹ بوٹ اور رنگ برنگے آنچل نظر آئے۔ سب اندراج کے لیے اپنی اپنی باری کے منتظر تھے۔ جب ہر پروبیشنر کو فرداً فرداً تسلیمات کر کر کے تھک گئے تو ہم نے نئی نویلی افسری کے زعم میں انتظامیہ کے ایک صاحب سے حسرت بھرے لہجے میں پوچھا کہ میری باری کب آئے گی؟ انہوں نے درشتی سے ہمیں جھٹک دیا۔ ان کے یوں سنی ان سنی کر دینے پر ہم غم زدہ سی صورت بنا کر بیٹھ گئے اور پیچ و تاب کھانے لگے۔

آخر کار خاصے انتظار کے بعد قرعہ فال ہمارے نام نکلا۔ وہاں سے ہم کھانے کے کمرے یعنی میس میں پہنچیے تو وہاں کنکر پلاؤ پکا تھا۔ اسے کھا کر خفیف سے درد شکم کے علاوہ کوئی خاص تکلیف نہ ہوئی۔ ہمیں اس احساس سے بڑی تقویت پہنچی کہ ہمارے معدے لکڑ ہضم، پتھر ہضم کی کیفیت اختیار کر چکے ہیں۔ یعنی مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں۔

اگلے دن ڈائریکٹر صاحب کا افتتاحی خطاب تھا، جس میں ہم پر انکشاف ہوا کہ اصل میں ہم انسان نہیں بلکہ کونج ہیں۔ لگتا تھاکہ ڈائریکٹر صاحب ڈارون کے نظریہ ارتقا سے متاثر ہیں۔ دراصل ڈائریکٹر صاحب نے خطاب میں ہمیں کونجوں کی طرح اتفاق و اتحاد کی تلقین کی تھی۔ کونجیں انگریزی حرف v کی طرح قطار بنا کر اڑتی ہیں، جس سے اڑنے میں سہولت ملتی ہے۔ چنانچہ کونج باری باری سب سے آگے والی کونج کی جگہ لیتی ہے۔ مزید برآں اگر کوئی کونج زخمی ہو جائے تو دو کونجیں اپنی ڈار سے الگ ہو کر اس کی مدد کے لیے اس کے ساتھ ہو لیتی ہیں۔

کمرائے جماعت میں پہنچنے تو دیکھا کہ وہی مضامین شد و مد کے ساتھ پڑھائے جا رہے تھے، جن کو پڑ ہ کر ہمارے ذہن کے سوتے خشک ہو گئے تھے۔ مثلاً تعلیم سب کے لیے، غریبوں کے لیے صحت کی بنیادی سہولتیں۔ اور انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد وغیرہ۔ یعنی تعلیم بالغاں کا منظر تھا۔ یہ سب دیکھ کر ہمارے خوابوں کا محل چکنا چور ہو گیا اور ہم زیر لب گنگنا اٹھے۔

؎ بہت شور سنتے تھے اس انجمن کا
یہاں آ کے جو کچھ سنا تھا، نہ دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).