ریپ سے بچنے کا صحیح طریقہ


لڑکی خواہ تین برس کی ہو یا دس برس کی؛ اٹھارہ برس کی ہو یا پکی عمر کی؛ وہ ہر لمحہ، ہر وقت اور ہر جگہ ریپ کے خطرے سے دو چار رہتی ہے۔ خواہ اس نے مختصر کپڑے پہنے ہوں یا سر سے پاؤں تک برقعے میں لپٹی ہو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا؛ تاڑنے والے بھی قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ لڑکی کی نبض چل رہی ہو؛ ایسے ریپسٹ موجود ہیں جو قبروں سے بھی لڑکی کی لاش نکال کر اپنے مذموم مقصد کو پورا کر لیتے ہیں۔ روز ایک نئی کہانی میڈیا کی زینت بنتی ہے۔ روز ایک نیا نام سامنے آ جاتا ہے۔ زینب ہو، اسما ہو یا فرشتہ؛ کہانی کے محض کردار بدلتے ہیں مرکزی خیال ایک ہی رہتا ہے۔

تو پھر اس ریپ سے کیسے بچا جائے۔ ایک لڑکی آخر کیا کرے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ لڑکی کو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح وہ خود بخود ریپ سے بچ جائے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تاہم والدین کے اختیار میں تو ہے۔ والدین کو چاہیے کہ پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کریں اور لڑکی ہونے کی صورت میں اسے پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دیں۔ یہ نا انصافی نہیں ہوگی بلکہ پیدا ہونے والی لڑکی پر احسانِ عظیم ہو گا۔

یہ انسانوں کا معاشرہ ہے اور لڑکی ظاہر ہے انسان تو نہیں ہوتی۔ وہ ایک لڑکی ہوتی ہے اور ظاہر ہے انسانوں کے معاشرے میں ریپسٹ بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اب یہ ریپسٹ اپنے سفلی جذبات پر قابو کیوں نہیں پا سکتے اس بارے میں ہمارے معاشرے کے ’عظیم دانشوروں‘ کا خیال ہے لڑکی کو دیکھ کر، اس کا نام سن کر یا اس کا تصور کرتے ہی ریپسٹ اس قدر مجبور ہوتا ہے کہ پھر وہ خود کی بھی نہیں سنتا گویا لڑکی کا وجود اس کریہہ عمل کی بنیاد ہے۔ صاف لفظوں میں ریپ کی ذمہ داری لڑکیوں پر عائد ہوتی ہے۔ لڑکیاں اگر کسی زہریلی ناگن، بد نما مکڑی یا کانٹے دار سیہ کی صورت میں جنم لیں تو ریپ سے بچ سکتی ہیں۔

جہاں تک ریپسٹ کے لئے کسی سزا وغیرہ کی بات ہے تو اسے خارج از امکان ہی سمجھیے کیوں کہ یہ ذکر تو پہلے ہی ہو چکا ہے کہ ریپسٹ کی تو کوئی خطا ہی نہیں ہوتی پھر کیوں اسے بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکایا جائے یا کیوں پتھر مار کر سنگسار کیا جائے۔ بعض نادان دانشور معاشرے کے سدھار کی بات کرتے ہیں۔ گھٹن اور فرسٹریشن کے خاتمے کے لئے سعی کی بات کرتے ہیں۔ شاید وہ اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لڑکی کو بھی انسانیت کے درجے پر فائز کرنا پڑے گا۔ اب یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ لڑکی کو انسان قرار دے دیا گیا تو کل کلاں کو گائے، بھیڑ اور بکریاں وغیرہ بھی اسی طرح کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ ایسے ریپسٹ بھی تو موجود ہیں جو ان کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اس مسئلے کا کوئی اور حل ہی سوچنا ہو گا۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت کو اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیے تو آپ کی سوچ غلط ہے۔ حکومت کے پاس کرنے کے لئے انتہائی اہم کام ہوتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ حکومت کو تو کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں۔ اربوں درخت لگائے جا رہے ہیں۔ کروڑوں نوکریوں کا انتظام کیا جا رہا ہے، لاکھوں گھر بنائے جا رہے ہیں۔ ڈیم بھی بنانا ہے، سمندر سے تیل نکالنا ہے، حکومت کے خزانے کو بھرنے کے لئے نت نئے ٹیکس ایجاد کرنے میں بھی دماغ کو خاصا کھپانا پڑتا ہے، قرض کے حصول کے لئے دنیا بھر کے ملکوں کے دورے بھی کرنے پڑتے ہیں اسی طرح بے شمار کام ہیں۔ حکومت بے چاری کیا کرے۔ پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے حکومتی عہدے دار کسی مظلوم تک پہنچ کر اس کی داد رسی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

ایک اور طریقہ بھی ہے کہ ہرایسے گھر میں جہاں کوئی لڑکی ہو ایک ایسا تہہ خانہ بنایا جائے جس میں کوئی کھڑکی یا روشن دان نہ ہو۔ یہ پینک روم بم پروف، نظر پروف اور خیال پروف ہونا چاہیے۔ تا کہ کسی کا خیال بھی اس کمرے کی پتھر کی دیواروں کے پار نہ جا سکے۔ لڑکی لوہے کا لباس زیب تن کر کے اس کمرے میں رہائش اختیار کر لے۔ بعد ازاں اس کمرے کے اکلوتے دروازے پر تین چار بھاری تالے لگا کر چابیاں کسی دریا میں ڈال دی جائیں تاکہ دوبارہ دستیاب نہ ہوں۔

تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس دروازے میں ایک چھوٹی سی درز رہنے دی جائے تا کہ اگر کبھی لڑکی سورج کو دیکھنے کی خواہش کرے تو کوئی محرم اس درز سے سورج کی تصویر اندر سرکا سکے۔ یہ احتیاط اس لئے کی گئی ہے کہ بعض لڑکیاں محرم افراد کی ہوس کا نشانہ بھی بن چکی ہیں۔ اس طرح لڑکی اپنی زندگی محفوظ طریقے سے بسر کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).