بنت حوا کو جنسی درندوں سے کیسے بچایاجائے؟


ایک سال قبل قرآن مجید پڑھنے کے لئے جانے والی دس سالہ زینب کو محلہ کے ہی ایک لڑکے نے اغوا کیا۔ جس بے جاہ میں رکھا۔ اس کو اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور قتل کر کے لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی۔ پولیس نے اپنی روایتی بے حسی اور بے پروائی سے اس کیس کو ہینڈل کیا۔ سوشل۔ پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز کے وا ویلا کرنے اوروالدین کے آواز بلند کرنے پر تحقیقات کا آغاز ہوا اور ایک لمبے قانونی پراسس کے بعد قاتل اپنے کیفر کردار تک پہنچا۔

ابھی اس کیس کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ دارالحکومت سے خبر آئی کہ پولیس کے تین شیر جوانوں نے رات کو ایک لڑکی کو کار میں جاتے ہوئے روکا۔ اپنی گاڑی میں ڈالا اور باری باری اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ زیور اور نقد رقم چھین کر اسے اس کے ہوسٹل کے باہر چھوڑ دیا۔ دھمکیاں دیں۔ کہ کسی کو بتایا تو اچھا نہیں ہو گا۔ تھانے میں رپورٹ ہونے پر پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کو گرفتار تو کر لیا ہے۔ لیکن ان پر کن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے اس کا کوئی پتا نہیں ہے۔

دو روز قبل دارالحکومت کے ہی علاقے علی پور میں دس سالہ فرشتہ اپنے گھر سے باہر کھیلنے نکلی۔ کسی درندہ صفت نے اس معصوم کو اغوا کیا۔ درندگی کا مظاہرہ کیا۔ اس معصوم کلی کو مسلنے کے بعد قتل کیا اور لاش کو آگ لگا کر جلا دیا۔ والدین تھانے رپورٹ کے لئے گئے تو پولیس حسب معمول ٹال مٹول سے کام لیتی رہی اور والد سے کہا۔ کہ لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ اس کے بھائی سے تھانے کی صفائی کرواتے رہے۔ میڈیا کے ٹی۔ وی اور اخبارات میں شور مچانے پر حکومتی مشینری حرکت میں آئی۔ رپورٹ درج ہونے کے بعدمعصوم کی نعش کی برامدگی ہوئی۔ اور اس پر اب مختلف حلقوں کی سیاست جاری ہے۔

گجرات کے نواحی گاؤں کی رہائشی خادمہ جو کسی پیر صاحب کے یہاں ملازمہ تھی کو دو سال قبل تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ جلانے کے بعد اس معاملہ کو دبا دیا گیا۔ اور اب میڈیا میں رپورٹ ہونے پر حکام بالا نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔ لیکن دباؤ کی وجہ سے والدین نے جلانے والوں کے حق میں بیان دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے واقعات ہیں۔ جہاں معصوم بچیوں۔ سکول جانے والی نوجوان لڑکیوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے اور ریپ کر کے ان معصوم کلیوں کو مسل دیا جاتا ہے۔ والدین کمزور اور غریب ہونے کی وجہ سے چپ ہو جاتے ہیں۔ دوسرا پولیس کے رویہ کی وجہ سے بھی تھانہ کچہری اور اپنی عزت کی خرابی کی وجہ سے خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔

ایسے واقعات میں سب سے گھناونا کردار ہماری پولیس کا ہوتا ہے۔ پہلے تو رپورٹ ہی نہیں درج کرتی۔ خواہ مخواہ والدین کی بے عزتی کرتی ہے۔ والدین بیچاروں پر پہلے ہی قیامت کا سماں ہوتا ہے۔ ان کی معصوم بچیوں۔ بچوں کو درندگی سے نوچ لیا جاتا ہے۔ جس کا غم برداشت سے پہلے ہی باہر ہوتا ہے۔ اور پھر تھانے میں رپورٹ درج کرانے کے مراحل ایسے ہیں جس میں ان کی رہی سہی ہمت اور عزت نفس ختم کر دی جاتی ہے۔ بہت سے والدین اس مرحلے میں اتنے زیادہ مایوس ہوتے ہیں کہ بالکل چپ کر کے معاملات اللہ کے سپرد کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی شخصیات اندر سے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم اس وقت معاشرت کے تاریک دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ کتنا درندہ صفت اور بے حس ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ آئے روز ایسے واقعات سے ہوتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں ہم ان ظالموں کا بھی ساتھ دیتے ہیں۔ سب اٹھ کر شور مچاتے ہیں۔ چند دن زور شور سے اس کا چرچا ہوتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ گرد بیٹھنی شروع ہو جاتی ہے۔ اور سب بھول جاتے ہیں۔

ہماری حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے جرائم کا فوری مقدمہ علیحدہ عدالتوں میں چلایا جائے۔ اور مجرموں کو فوری انصاف کے کہڑے میں لا کر پندرہ دن کے اندر ان درندہ صفت افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اس پر فوری عمل بھی کیا جائے۔ اس سے مظلوموں کی داد رسی ہو گی اور ان درندوں کی ہمت بھی ٹوٹے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کو ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات کے لئے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عملدرامد بھی کرایا جائے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کیس پہلے چھوٹی عدالتوں میں اس کے بعد سیش کورٹ۔ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ ایک لمبا سفر ہے۔ جس سے مظلوم ان عدالتوں میں رُل جاتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک قتل کیس میں والدین کو 25 سال کیس لڑنا پڑا اور جو رقم خرچ ہوئی وہ الگ ہے۔ ان وکلاء حضرات کا کردار قابلِ تعریف ہے جو مظلوموں کی کیس میں مدد کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں بغیر فیس کے بھی ان کا کیس لڑتے ہیں۔ لیکن کچھ وکیل صاحبان اپنے پیسوں کی خاطر کیس کو خواہ مخواہ طول دے کر ظالموں کی مدد کرتے ہیں۔

ایسے معاملات میں پولیس کا کردار انتہائی منفی اور انتہائی شرمناک ہوتا ہے۔ پہلے تو رپورٹ ہی درج نہیں ہوتی۔ اور اگر رپورٹ درج بھی ہوجائے تو ملزموں سے پیسے لے کر ایف آئی آر اور تفتیش میں ایسے سقم چھوڑ دیتے ہیں جس کا فائدہ ملزموں کو ہوتا ہے۔ پولیس والے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے پورا کیس ہی خراب کر دیتے ہیں۔ پولیس کے لئے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قانون کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہیے۔ ایسے کیسوں کی تفتیش کے لئے افسران کی جدید خطوط پر ٹریننگ ہونی چاہیے۔ پولیس کا رویہ بہتر بنانے کے لئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے آزاد ہونے کی وجہ سے اور بہت سے فائدوں کے علاوہ ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے۔ کہ ہر کیس کا فوری پتہ چل جاتا ہے۔ وہ اس کو اس طرح ہائی لائٹ کرتے ہیں۔ کہ حکومت۔ عدلیہ اور پولیس کو مجبوراً اس میں ملوث ہونا پڑتا ہے۔ اور بعض صورتوں میں مظلوم کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔ ورنہ پہلے تو ایسے کیس کہیں رپورٹ ہی نہیں ہوتے تھے۔ کچھ والدین اپنی اور بچوں کی رسوائی کے ڈر سے چپ سادھ لیتے ہیں جس سے مجرموں کی ہمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم پہلو نفسیاتی ہے۔ جس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ ان عوامل کا پتہ لگانا چاہیے۔ جن کی وجہ سے یہ لوگ جنسی درندے بن جاتے ہیں۔ اس پر حکومت کو چاہیے کہ ضروری اقدامات اُٹھائے جائیں۔ اس کے لیے حکومت کو کسی لایٔق اور اچھے سائیکائٹرسٹ کی خدمات حاصل کرنی چا یٔیے جو ایسے کیسز کی مکمل سٹڈی کر کے اس کے پیچھے چھپے عوامل کا پتہ لگا کر اپنی سفارشات بتاہیں جن پر عمل کر کے ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے اور حکومت ان پر عمل درآمد یقینی بنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).