خدا کسی دشمن کو بھی اولاد کا غم نہ دکھائے


یہ تو اولاد والے ہی جانتے ہیں کہ نہ جانے کتنی مشکلات اور امتحانات سے اولاد پلتی ہے۔ نہ جانے کتنے رت جگے اولاد کی سکھ کی نیند کے لئے ماں باپ کاٹتے ہیں۔ اپنی کتنی خواہشوں کو مار کر اولاد کے خواب خریدتے ہیں۔ اپنے ہر خواب کو اپنی اولاد سے جوڑ لیتے ہیں۔ لاڈ اٹھاتے ہیں، نخرے برداشت کرتے ہیں۔ کیونکہ اولاد دل کا ٹکڑا جو ٹہری آنکھوں کا نور ٹھہری۔ جس گھر کے آنگن میں معصوم کلکاریوں کی گونج نہ ہوں تو کیسا اجاڑ اجاڑ سا لگتا ہے نا۔

گھر میں کہیں کھلونے بکھرے پڑے ہوں کہیں کتابیں پڑی ہوں تو گھر کیا بھرا بھرا سا لگتا ہے۔ اولاد کی کامیابی اپنی زندگی سے بڑھ کر لگتی ہے اولاد کا ہر اٹھتے قدم پر ماں باپ کا دل دھڑک دھڑک جاتا ہے۔ کیسا فخر ہوتا ہے جب پیارا سا فرشتہ اپنے ننھے ننھے پاتھوں سے پانی پلاتا ہے اس پانی کی ٹھنڈک روح تک کو سیراب کردیتی ہے۔ یہ اولاد تو ماں باپ کے لیے جیتے جاگتے کھلونوں جیسی ہوتی ہے جن سے کبھی دل نہیں بھرتا، ان کی ذرا سی تکلیف پر لگتا ہے، کہ کسی نے بدن سے جان کھینچ لی ہو۔

اولاد کے غم میں تو پیغمبر بھی اپنی آنکھیں رو رو کر کھو دیتے ہیں۔ نوح نے بھی تڑپ کر خدا سے بیٹے کے لیے پناہ مانگی تھی۔ خدا کی رضا کے لیے ابراہیم نے اسماعیل کو قربان کرنے سے پہلے آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی۔ اس معصوم کلکاری کی خاطر تو بی بی آسیہ، فرعون وقت سے ٹکرا گئی تھیں اور موسی کو جوان کیا تھا۔ کربلا میں بھی حسین پر جوان اکبر کا لاشہ سب پر بھاری تھا۔ جب یہ اولاد پالنے سے پاؤں پاؤں اور پھر چپکے جوانی کی دہلیز پر پیر رکھتی ہے تو ایک دم اپنا آپ بوڑھا اور تھکا تھکا سا لگتا ہے مگر کس قدر خوش نما احساس ہوتا ہے کہ جس پودے کو ہم نے برسوں آبیاری کی اب وہ درخت بن کرہمیں چھاؤں دے گا۔

لیکن ماں باپ کا یہ خواب قسمت ان سے چھین لے تو ان کے دل پر کیا اور کیسے گزرتی ہو گی۔ سوچتی ہوں ننھی زینب کے ماں باپ اب بھی ان گرمیوں میں آم دیکھ کر تڑپ تڑپ جاتے ہوں گے۔ چلو اس کے قاتل کو تو سزا ہو گئی لیکن کیا اس کی سزا سے معصوم سی گڑیا میں جان واپس آ سکے گی؟ کہیں کسی ماں باپ کی فرشتے جیسی فرشتے کسی ظالم کے ہاتھ مٹی کے کھولنے کی طرح بکھر گئی لیکن اس کے ماں باپ اپنی شناخت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کہیں آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہیدوں کے ماں باپ کے آنسو اتنے برسوں میں نہ رک سکے تو کہیں نقیب اور مشعل کے ماں باپ اندھے بہرے قانون کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔

تو کہیں ہزارہ کے جوان لاشوں پر ماں باپ کے بین ختم نہیں ہوتے۔ کہیں کائرہ جیسے سیاستدان بھی ایک دن میں جوان لاش کو دفنا کر برسوں کے بیمار ہو جاتے ہیں۔ ہنستی کھیلتی اولاد کی موت سے بڑا کیا سانحہ ہو گا۔ یہ روگ تو رگ جان کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں صبر کرو لیکن جن ماں باپ کی دنیا لٹ جائے ان کو نہ جانے کیسے صبر آتا ہو گا۔ ان کو کیسے یقین ہوتا ہو گا کہ اب جانے والا کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔

میری امی ہمیشہ مجھ سے کہتی تھیں جب ماں بنوگی جب پتہ چلے گا اور سچ ہے جب ماں بنی تو پتہ چلا کہ اولاد کیا چیز ہے۔ کسی کے ماں باپ کے مرنے پر تعزیت کرنا کون سا پہاڑ سے کم ہے۔ لیکن کسی ماں باپ سے اس کی اولاد کا پرسا دینا کتنا صبر آزما ہے یہ کوئی اولاد والوں سے پوچھے۔ خدا کسی دشمن کو بھی اولاد کے غم سے نہ آزمائے ہر آنگن کی رونق سلامت رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).