ذاتی مشاہدہ اور تحقیق و تصدیق لازمی ہے


ہمارے آقا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مخالف بھی ان کی نیکی اور سچائی کی شہادت دیتے تھے اور ان کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔ کسی کے مخالف کی اس کے حق میں گواہی کو اس کی سچائی کا بہت بڑا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ ایک طبقے میں جہاں اصول اور رواداری کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، ابھی تک یہ بات صحیح سمجھی جاتی ہے۔ پر عمومی طور پر دیکھاجا رہا ہے کہ مادی خواہشات اور اندھی تقلید کے چکر میں عالمی سطح پر اصول اور ایمانداری پر مفادات کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔

وقتی فائدے کے لئے لوگوں کا حال اور مستقبل دونوں ہی داؤ پر لگائے جا رہا ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر دیکھا جائے تو کسی کے بارے میں کچھ بھی کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ سچ یا جھوٹ دونوں ہی کی قیمت لی جا رہی ہے۔ لوگوں تک سچائی پہنچانی ہو تو بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، اس انسان کو بھی جس کے منہ سے وہ سچ نکلے گا اور اس ادارے کو بھی جس کے ذریعے وہ سچ لوگوں تک پہنچے گا۔ سچائی کی اہمیت سے زیادہ اہمیت اس انسان اور ادارے کی ہے جس کو ذریعہ بنایا جاتا ہے۔

اگر سچائی کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے سستے ذرائع استعمال کیے گئے تو اس سچ کی اتنی اہمیت نہیں رہے گی جتنی مہنگے ذرائع سے پھیلائی گئی بات کی ہو گی چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے اعتماد کی فضا ختم ہو چکی ہے اور ہر کوئی مشکوک ہو گیا ہے۔ کوئی صحیح بات کررہا ہو اور سب کو پتا ہو کہ وہ بات ٹھیک ہے پھر بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ بات کرنے والے نے یہ بات کہنے کا کوئی نہ کوئی معاوضہ ضرور لیا ہو گا۔

اسہی لئے میں سمجھتا ہوں کہ ذاتی مشاہدہ اور تحقیق و تصدیق لازمی ہو گئی ہے۔ جو بھی معلومات ہم تک پہنچ رہی ہے اس کو پرکھنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ چاہے وہ تاریخ کے بارے میں ہوں یا موجودہ سیاسی حالات کے بارے میں اور چاہے سائنسی معلومات ہوں یا مذہبی ہر صورت میں تحقیق کر لینی چاہیے۔

ذاتی مشاہدے اور تحقیق کے لئے کہا جاتا ہے کہ عام آدمی کے لئے بہت مشکل کام ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ تحقیق اور تصدیق کے لئے کچھ شرائط لازمی ہیں جن میں غیر جانبداری، مضمون کی بنیادی معلومات اور تصدیق کے لئے صحیح اور متعدد ذرائع کا انتخاب شامل ہیں۔ اس دور میں معلومات کی فراہمی بہت تیز ہے اور معلومات کی فراہمی کے ذرائع بہت زیادہ ہیں۔ یہ ذرائع بہت عام بھی ہیں اور اب بہت زیادہ لوگوں کی رسائی میں ہیں۔

جن ذرائع سے معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں انہی کو استعمال کرتے ہوئے معلومات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ جیسے اگر کوئی آدمی کسی کے بارے میں کوئی بات بتاتا ہے تو اسہی سے اس کی معلومات کا ذریعہ پتا کریں۔ جب تک کسی بھی معلومات کے معتبر ذرائع نہ پتا لگیں اس کونہ تسلیم کریں اور نہ پھیلائیں۔ بعض دفع ہم بات کو تسلیم تو نہیں کرتے پر پھیلانا پھربھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کی بہت عام مثال retweet ہے۔ ہم اپنی تعرفی سطور میں retweet میں دی گئی معلومات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں اور دوسروں کے tweet کو با آسانی retweet کر دیتے ہیں۔ اب اگر ہم ایک بات سے خود متفق نہیں تو دوسروں تک کیوں پہنچا رہے ہیں۔

انٹر نیٹ اس وقت معلومات کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انٹر نیٹ کے استعمال میں یہ بات کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ انٹرنیٹ صحیح غلط یا سچ جھوٹ کا کوئی فلٹر نہیں ہے۔ کسی بھی معلومات کا صحیح یا غلط کی فیصلہ کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ اور اس کے لئے ذاتی مشاہدہ اور تحقیق کی ضرورت ہے اور تحقیق اور تصدیق کے لئے جو شرائط لازم ہیں ان میں غیر جانبداری، مضمون کی بنیادی معلومات اور تصدیق کے لئے صحیح اور متعدد ذرائع کا انتخاب شامل ہیں۔

ذاتی مشاہدے اور تحقیق و تصدیق کی اہمیت کو جاننے کے لئے اتنا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جھوٹ کے ہاتھوں تقسیم ہونے سے بہتر ہے کہ سچ کے ہاتھ پر متحد ہوجائیں۔ سچ کی تلاش ایک فطری عمل ہے اور اس دور میں جہاں بہت سی معلومات بہت تیزی سے ہمیں مل رہی ہیں، زندگی بہت اضطراب کی کیفیت میں گزر رہی ہے کیونکہ کہ ان معلومات میں سے کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اس کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ ہمیں ان معلومات کو اتنی ہی تیزی سے فلٹر کرنے کا طریقہ نکالنا ہے۔

ایک ایسا فلٹر جس سے ہم وہ معلومات الگ کر لیں جو ہم نے ذہن میں بیٹھانی ہے اور باقی خود بخود فلٹر ہو کر باہر رہ جائیں۔ ایسا فلٹر بنانے کے لئے ان معلومات کو پرکھنے کے کچھ معیار بنانے کی ضرورت ہے جیسے مذہبی معلومات کو قرآن و سنت سے پرکھنا ہو گا، اخلاق سے گری باتوں کو بغیر وقت ضائع کیے رد کر دینا ہے چاہے وہ آپ کے مخالف کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو، انسانی ہمدردی کے مطابق کچھ بنیادی اصول بنائیں اور ان کے خلاف نہ خود بات کریں نہ کسی سے سنیں۔ ہم سب کو چاہیے کہ اس معاملے میں لوگوں کی مدد کریں اور ذاتی مشاہدے اور تحقیق و تصدیق پر زور دیں۔ بین الاقومی سطح پر اس کی بہت ضرورت ہے۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).