یہاں تو مائیں بھی محفوظ نہیں


بچے کسی بھی ملک میں مقدس امانت ہوتے ہیں، انہی کی وساطت سے قومیں آ گے بڑھتی ہیں، مائیں بچوں کی بنیادی درس گاہیں قرار دی جاتی ہیں، بیٹیاں گھروں کی زینت ہوتی ہیں، مگر ہمارے ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے ،ملک و قوم کے مستقبل کو ہم نے ابتدا سے ہی کھلونا بنا رکھاہے، خیبر سے کراچی تک کون سا وہ علاقہ ہے جہاں ہمارے بچے، بچیاں محفوظ ہیں، روزانہ درجنوں کے حساب سے بچے اغوا ہوجاتے ہیں، زیادتی کے بعد ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں.

 ہم آج تک ان جرائم کی ہمیشہ کیلئے بیخ کنی کے بارے میں کچھ نہ کر پائے، بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں چوروں اور چوکیداروں کا ایکا ہے، جس کیس میں بھی ہاتھ ڈالیں پولیس کسی نہ کسی طور اس میں ملوث نظرآئے گی، حالیہ دنوں میں بچوں کے خلاف جرائم کی شرح کچھ زیادہ ہی نظر آئی، یہاں بچوں کے خلاف جرائم کی ایسی نظیریں بھی سامنے آئیں جن پر ہالی وڈ میں فلمیں بھی بن سکتی ہیں، مگر اپنی بے حسی دیکھئے کہ یہاں ہر جرم کی تکرار کے لئے صرف دو تین دن ہی مخصوص ہوتے ہیں اور پھر کوئی نہ کوئی نئی بڑی کہانی جنم لے لیتی ہے.

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ بچوں کے خلاف جرائم کے بارہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، اسلام آباد کی دس سالہ فرشتہ کے کیس میں پولیس کا کردار جانچ لیا گیا ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ روزانہ لا پتہ ہونے والے بچوں کی تعداد سینکڑوں تک ممکن ہو سکتی ہے، یہاں بچوں کی ہی نہیں جوان لڑکیوں کی لاشیں بھی کبھی کسی نہر سے ملتی ہیں، کبھی کسی قبرستان کے دروازے سے ، کبھی کسی ویرانے سے، قاتل نا محرم اور نامعلوم ہی نہیں خود ان کے گھر والے بھی ہوتے ہیں.

ساری نشان دہیاں ہوجانے کے باوجود اکثر کیسز میں نہ پرچے کٹتے ہیں نہ ملزم گرفتار ہوتے ہیں، ان سارے سانحات کا ذمہ دار صرف اور صرف پولیس کا صدیوں پرانا فرسودہ اور حاکمانہ نظام ہے، کم از کم پچاس سال سے سے تو میں خود متواتر اس سوچ میں ہوں کہ اگر پاکستان سے پولیس کا نظام اور پولیس کا ادارہ ختم کرکے کوئی متبادل سسٹم قائم کر دیا جائے توآدھے جرائم از خود ختم ہو سکتے ہیں.

آپ ہی مجھے جواب دیدیں کہ لاہور میں سو بچوں کے قتل کے واقعہ سے قصور کے زینب کیس تک، پولیس کی وجہ سے کیا کوئی انجام سامنے آیا، ؟ کتنے بد نصیب ہیں ہم کہ اس ملک کے عوام کی نظروں میں جرائم کے حوالے سے سب سے زیادہ مشتبہ خود پولیس کے کئی اہلکار ہو سکتے ہیں۔

دس سالہ فرشتہ کی گمشدگی کا پرچہ کٹوانے کیلئے پولیس سے پندرہ مئی کو رابطہ کیا جاتا ہے اور پرچہ کٹتا ہے بڑی بڑی سفارشوں کے بعد انیس مئی کو اور پھر اگلے دن اس کی درندوں کی نوچی ہوئی لاش ملتی ہے جنگل سے، میرا تو اس واقعہ میں پہلا شبہ ہی پولیس کی طرف جاتا ہے، میں تو یہی سوچتا ہوں کہ فرشتہ پولیس اہلکاروں کے اپنے قبضے میں ہوگی، جب بات اوپر تک پہنچ گئی اور ساری دنیا میں سوشل میڈیا نے شور مچا دیا تو اسے قتل کرکے درندوں نے اس کی لاش جنگل کے درندوں کے سپرد کر دی.

لاقانونیت اور مجرموں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ گلی گلی میں اس سانحہ کا شور مچا ہوا تھا اور لاہور سے ایک تین سالہ بچی کو عین سڑک کے بیچ سے اغوا کر لیا گیا، یہ بچی اپنے سے ایک سال بڑے بھائی کے ساتھ تھی، چار سالہ بھائی نے ننھی بہن کو ملزم کے آہنی ہاتھوں سے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ایک چار سال کا بچہ اس طاقتور ملزم کا کیسے مقابلہ کر لیتا جو فوٹیج میں کسی پولیس اہلکار جیسا ہی لگتا ہے.

اس تین سالہ بچی کی خوش قسمتی تھی کہ راستے میں سکیورٹی اداروں کا ناکہ موجود تھا اور وہ اس بچی کو ایک مسجد میں چھوڑ کر فرار ہوگیا، اور یوں ایک گھر اپنی ننھی سی بیٹی سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونے سے بچ گیا، اسلام آباد میں فرشتہ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کے حوالے کی جا چکی ہے، اس سانحہ کو رپورٹ میں پولیس کی غفلت کا شاخشانہ قرار دیا گیا ہے، عمران خان نے براہ راست ایکشن لیتے ہوئے ایک اعلیٰ پولیس افسر کو فارغ اور ایک کو او ایس ڈی بنا دیا ہے، بچی کی گمشدگی رپورٹ میں نامزد پولیس اہلکار گرفتار کئے جا چکے ہیں.

دوسری جانب پاک فوج بھی اس کیس میں میدان میں اتری ہے اور اعلان کیا ہے کہ فرشتہ کے ملزموں کی گرفتاری کیلئے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا، یہ سب کچھ قابل تحسین، لیکن یہ گارنٹی کون دے گا کہ آئندہ بچوں کے خلاف جرائم کا خاتمہ ہو جائے گا؟ جناب ہم نے اس کالم میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے تو بہت باتیں کر لیں، مگر ہمارے معاشرے میں تو خود بچوں کی مائیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے جو ایک بار قبل بھی بیان کر چکا ہوں۔ پینسٹھ سالہ رشیداں بی بی 2009ء میں میرے پاس آئی تھی، اس کے ساتھ اس کا جواں سال بیٹا اور بہو تھی، رشیداں بیگم ساہیوال کے قصبے یوسف والا کی رہنے والی تھی، اس غریب عورت کے بیٹے نے گاؤں کے بااثر زمیندار گھرانے کی لڑکی سے لو میرج کر لی تھی وہ تینوں جان کو خطرے کی وجہ سے لاہور میں کہیں پناہ لئے ہوئے تھے.

رشیداں بی بی نے بتایا کہ اس کی بہو کے ورثاء اسے اٹھا کر لے گئے تھے اور بیٹی کو بہو بنانے کا انتقام اس سے اجتماعی زیادتی کرکے لیا گیا، لڑکی کے لواحقین نے رشیداں بی بی کے بوڑھے خاوند پر بھی جھوٹا مقدمہ بنوا کر اسے ساہیوال جیل میں بند کرا رکھا تھا، یوسف والا میں اسکی جواں سال بیٹی جو بی اے کی طالبہ تھی جان ، عزت بچانے کے لئے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے میں قیدی بن کر رہ رہی تھی، گھر کے باہر تالہ لگا دیا گیا تھا.

اس خاندان کی مدد کے لئے گاؤں کا کوئی شخص سامنے نہیں آیا تھا، پولیس رشیداں بی بی سے اجتماعی زیادتی کا پرچہ کاٹنے کی بجائے اسے خوفزدہ کر رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کو پیش کردے ورنہ اس کی طالبہ بیٹی کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو اس کے ساتھ کیا گیا۔ رشیداں بی بی اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ گزرنے والی قیامت کو میڈیا کے سامنے نہیں لاناچاہتی تھی ، وہ صرف انصاف اور تحفظ مانگ رہی تھی۔ لیکن کوئی عدالت کوئی تھانہ اس کے لئے نہیں بنا تھا.

روزانہ وقوع پذیر ہونے والے اس طرح کے واقعات تو تماشہ ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم بڑی دلچسپی سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔میں نے ساہیوال میں دی نیوز کے نمائندے علمدار حسین شاہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ رشیداں بی بی کی مدد کرے، میں نے اس خاتون کی آئی جی سے ملاقات بھی کروائی، لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلا، رشیداں بی بی در بدر رہی۔

دو تین مہینے گزر گئے، رشیداں بیگم آئی نہ اس کی کوئی کال، پھر جب وہ آئی تو اس حالت میں تھی کہ اسے دیکھا تک نہیں جا سکتا تھا، اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا گیا تھا، پولیس اس کامقدمہ بھی نہیں درج کر رہی تھی، ساہیوال پولیس کا کہنا تھا کہ مائی ڈرامے کر رہی ہے، اپنے اوپر تیزاب بھی اس نے خود ڈالا ہے۔رشیداں بی بی اپنی بپتا مجھے سنا رہی تھی کہ اسی دوران پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کسی کام سے میرے کمرے میں آ گئے، میں نے رشیداں بی بی سے کہا کہ اچھا ہوا کہ آپ کی موجودگی میں یہ صاحب آ گئے ہیں، شاید یہ آپکی کوئی مدد کر سکیں۔

میں نے پارلیمانی لیڈرکے کرسی پر بیٹھتے سے پہلے ہی انہیں رشیداں بی بی کی کہانی سنادی، انہوں نے فوراً اپنے سیکرٹری سے کہا۔ ڈی پی او ساہیوال کا نمبر ملاؤ۔ موصوف نے ڈی پی او سے رشیداں بی بی کیس کے حوالے سے تفصیلات دریافت کیں اور پانچ سیکنڈ میں ہی جواب سن کر موبائل سیکرٹری کو واپس کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے،، مائی جھوٹ بولتی ہے، یہ سارے ڈرامے مائی خود کر رہی ہے، اس واقعہ کے چند دن بعد ہی رشیداں بی بی کے بیٹے کی کال آئی،،،،،،،،ماں مر گئی ہے۔

رشیداں بی بی کو مرے دس سال بیت چکے ہیں اور آج میں پنجاب کے حکمرانوں کے سامنے یہ درخواست رکھتا ہوں کہ وہ ہمیں تحقیقات کرکے آگاہ فرمائیں کہ کیا رشیداں بی بی کا بیٹا، اس کی بہو اور اس کی بیٹی بھی زندہ ہیں یا انہیں بھی مار دیا گیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).