عبدالحمید خان بھارت کا ایجنٹ ہے یا پاکستان کا؟


یہ اگست 1997 ء کا واقعہ ہے گلگت شہر میں گلگت بلتستان میں آئینی و قانونی حقوق کی عدم فراہمی پر مقامی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے موقعے پر احتجاج کیا اور بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر نعرے لگائے۔ مظاہرین پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور ان میں سے کئی ایک کو گرفتار کیا گیا جن میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے چئیرمین نواز خان ناجی، مرکزی راہنما عبدالحمید خان، انجنئیر شجاعت علی، قراقرم نیشنل فرنٹ کے راہنما انجنئیر جمعہ گل، محمد جاوید سمیت کئی ایک راہنما اور کارکن شامل تھے۔

گرفتار شدگان کو گلگت شہر کے نزدیک شروٹ پولیس چوکی میں منتقل کرکے تفتیش شروع کی گئی۔ 14 دن کی تفتیش 21 دنوں تک بڑھا دی گئی اور عبدالحمید خان کو اس وقت کے ایک مشہور اور حکام بالا کے روایتی چہتے پولیس آ فیسر نے اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس کے گردے متاثر ہوئے۔

ان دنوں راقم الحروف گلگت میں ایک سرکاری محکمے میں ملازمت کیا کرتا تھا جہاں ضلع گلگت کے دپٹی کمشنر کا دفتر بھی راقم کے دفتر کے ساتھ ہی واقع تھا۔ چونکہ راقم حالات و واقعات سے واقف تھا اس لئے ایک دن ڈی سی صاحب سے ملنے گیا اور عرض کیا کہ جو لڑکے گرفتار کیے گئے ہیں وہ بھولے بھٹکے جذباتی نوجوان ہیں جن پر پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے تشدد کر رہی ہے۔ ان نوجوانوں پر پولیس کی تشدد کا منفی اثر ہوسکتا ہے جس سے ان کے کچے ذہنوں کے باغی ہونے کے امکانات زیادہ ہیں اس لئے ان سے معافی تلافی کا معاملہ کیا جائے۔ ڈی سی صاحب نے بڑی رعونیت کے ساتھ خاکسار کی تجویز مسترد کردی اور راقم کو بھی بحیثیت سرکاری افیسر ان معاملات سسے دور رہنے کا مشورہ دیا۔

تفتیش مکمل ہونے کے بعد گرفتار شدگان کو چلاس جیل منتقل کیا گیا اور کیس کا چالان عدالت میں پیش ہوا۔ عدالت میں بہ آسانی گرفتار شدگان کی ضمانت ہوگئی اور کیس میں غداری سمیت کئی دفعات لگادئے گئے تھے جو عدالت میں ثابت نہ ہو سکے اور کئی سال چلنے کے بعد مقدمہ خارج ہوا اور تمام ملزمان باعزت بری قرار دیے گئے۔

اس واقعہ کے کئی سماجی اور سیاسی اثرات رونما ہوئے۔ جو سیاسی باتیں پہلے نہیں ہوا کرتی تھیں اب کھلے عام ہونے لگیں اور جو نعرے پہلے نہیں لگتے تھے اب ہر موقعے پر سنائی دینے لگے۔ اس واقعہ کی تشہیر ہوئی اور اس مظاہرے کے قائدین سے بین الاقوامی رابطے ہونے لگے۔ عبدالحمید خان کو پہلے ایران کے راستے اور پھر نیپال کے راستے بھارت کی راجدھانی دہلی پہنچا دیا گیا جہاں وہ اس سرزمین سے سیاسی پناہ لینے والا پہلا ایسا شخص تھا جس کو ریاست پاکستان سے شکایات تھیں۔

عبدالحمید خان کے بھارت جانے کے بعد اس سے متعلق بڑی کہانیاں سامنے آتی رہیں جن میں اس کے بھیجے پیسوں کا بڑا ذکر ہوتا رہا۔ کچھ لوگوں سے جن کو اس نے پیسے بھیجے تھے راقم کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ جو پیسے وہ بھیجتا ہے وہ راستے میں ہی کہیں گم ہو جاتے ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ چونکہ جن کو وہ پیسے بھیجتا تھا وہ بھی کسی سے شکایت نہیں کرسکتے تھے اور جن کے ذریعے بھیجتا تھا وہ بھی کسی کو جواب دہ نہیں تھے اس لئے پیسوں کاکا معاملہ مال مفت دل بے رحم کی مانند چلتا رہا۔ مگر ریاستی ایجنسیوں کے لئے یہ ایک ایسا بہانہ تھا جو کسی پر بھی ہاتھ ڈال کر اسے بھارت کا جاسوس، ایجنٹ ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔

بالاورستان نیشنل فرنٹ کے بانی نواز خان ناجی کے ساتھ عبدالحمید خان کے اختلافات لندن میں ملاقات سے پہلے گلگت میں ہی شروع ہوئے تھے۔ عبدالحمید خان نے اپنا ایک الگ دفتر جہاں وہ رہتا تھا وہیں کھول رکھا تھا۔ چونکہ ان اختلافات کی بنیاد کوئی فکری یا نظریاتی نہیں تھی اس لئے ایک دوسرے پر الزامات اور شکایات کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اختلافات کی بنیادی وجہ دونوں کا مزاج میں ایک دوسرے سے مختلف ہونا تھا۔

نواز خان ناجی سیاسی سے زیادہ ایک درویش منش انسان ہے جو سیاسی تدبر سے زیادہ اسرار و رموز پر یقین رکھتا ہے۔ ان کا بالاورستان کے نام سے پہلا کتابچہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف ایک سوچ اور خیال تھا کہ پہاڑوں کے دامن میں آباد لوگوں کو ایک تشخص کس طرح دیا جا سکتا ہے۔ ان کا سیاسی سفر بھی گلگت بلتستان میں بڑھتی بے روزگاری کے خلاف نوجوانوں کی ”بے روزگار ایکشن کمیٹی“ سے شروع ہوا جس کا مقصد تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نوکری دلانے کے لئے سرکار پر دباؤ ڈالنا تھا۔ بے روزگار ایکشن کمیٹی کے ممبران ہی اس کے پہلے سیاسی ہمسفر بنے جن میں سے کئی ایک آج بھی اس کے ساتھ ہیں۔

عبدالحمید خان کی زندگی کا سفر مہم جوئی سے عبارت ہے جس پر بات کرنا مناسب نہیں مگر اس کی سیاست سے وابستگی ضلع کونسل کا الیکشن ہارنے کے بعد گلگت میں نواز خان ناجی کی قائم کردہ بالاورستان نیشنل فرنٹ میں شمولیت سے ہوئی تھی۔ عبدالحمید فطرتاً ایک مہم جو تھا جو کچھ کر گزرنے کا خواہشمند تھا اور نواز خان ناجی ایک درویش آدمی تھا جو وقت اور حالات کے مطابق قدم اٹھانے پر یقین رکھتا تھا جس کی بنیاد پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ چل پائے۔

عبدالحمید خان پر ایک ہی الزام ہے کہ اس نے ہندوستان سے پیسے لے کر گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو بھیجے ہیں۔ ایک بار سماجی رابطے پر اس سے اس الزام کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ کیا پیسے لینا یا کسی کو پیسے بھیجنا جرم ہے؟ اگر پیسے لینا جرم ہے تو پھر یہ جرم ہماری سرکار خود کرتی ہے اور غیر سرکاری تتنظیمیں تو بنتی ہی پیسے لینے اور خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ شنید ہے کہ بھارتی بھی پیسے لے کر مطلوبہ نتائج نہ دینے پر عبدالحمید خان کو اپنا غدار نہیں تو بے وفا سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ وہاں سے اٹھ کر دوبارہ پاکستان آنے پر مجبور ہواہے۔

عبدلحمید خان کی کہانی سے مجھے 1971 ء میں سری نگر سے گنگا جہاز کواغوا کرکے لاہور لانے والے ہاشم قریشی یاد آگئے جس کو پاکستان میں ہندوستان کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں 19 سال کی سزا ہوئی تھی۔ سزا پوری کرنے کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان گیا تو ان کو ائیر پورٹ پر ہی گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں ہاشم قریشی نے کہا کہ وہ پاکستان میں ان ہی الزامات کے تحت سزا کاٹ چکے ہیں جس میں ان کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا اور اب ہندوستان میں ان کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا ہے۔ ہاشم قریشی نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کو بتایا جائے کہ وہ پاکستان کا ایجنٹ ہے یا ہندوستان کا؟ عدالت نے ان کو بھارت سرکار کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر الزامات سے بری کردیا اور اب وہ سری نگر میں رہتے ہیں۔

بالاورستان نیشنل فرنٹ کے اپنے دھڑے کے چئیرمین عبدالحمید خان کی پاکستان واپسی اور گرفتاری کو ریاستی ایجنسیوں کے ایک بڑے کارنامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ 14 دیگر افراد کی گرفتاری اور اسلحہ کی برآمدگی کی خبر بھی ہے لیکن ابھی تک گرفتار شدگان اور اسلحہ وغیرہ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ان کے جرائم اگر کوئی ہیں تو شواہد اور ثبوت کے ساتھ سامنے لائے جائیں۔ مجھ جیسے عام لوگ تذبذب میں ہیں کہ پاکستان کے نوجوانوں کو پیسے بھجنے والا عبدالحمید بھارت کا ایجنٹ ہے یا بھارت سے پیسے لے کر پاکستان میں اپنے تئیں مستحقین کی مدد کرنے والا پاکستان کا ایجنٹ۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan