صوفی سندھ کے روادار سینے پر خنجر سے وار
ڈھلتےسورج کی سنہری شعاعیں گا ڑی کےفرنٹ شیشےکو چیرتےہوئےمیری آنکھوں میں چبھ رہی تھیں۔ ہم سندھ کےایک غیرمعروف ضلع ٹنڈو محمد خان کےدورافتادہ گاوں کی طرف رواں دواں تھے۔ سٹرک کے دونوں جانب ہرے بھرے وسیع کھلے میدان تھے۔ اِ ن میدانوں میں کہیں بارشوں کا پانی جمع تھا، کہیں اونٹ دھیمی دھیمی چال چلتے چارہ تلاش کر رہے تھے اور کہیں سندھ کی جفاکش خواتین روائتی لباس زیبِ تن کئے کھیتی باڑی میں مصروف تھیں۔
میں اپنے دوست رانجھا سے مسلسل اصرار کئے جاتا تھا کہ سورج ڈھلنےسےقبل مطلوبہ گاوں پہنچا دے تاکہ صدیوں پرانی ثقافت کےرنگوں کومیں اپنی آنکھوں میں جذب کرسکوں اور پھر ہوا بھی ایسا ہی، شاباش رانجھا جی !
ضلع ٹنڈو محمد خان دریائےسندھ کی تاریخ اور طغیانی کا گواہ ہے۔اس ضلع کی سرحدیں حیدرآباد، ٹندوالٰہ یار،بدین اورٹھٹھہ سےملتی ہیں۔ وسیع پیمانے کی اکثریتی آبادی کی گزراوقات زراعت سےوابستہ ہے۔ یہاں کےباسی سورج کی حدت وتپش اورسردیوں کی سرد ہواوں کو انتہائی حدوں تک برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
گاوں میں سو سے کچھ اوپر خاندان آباد ہیں جن میں مسیحوں کی تعداد دو یا تین درجن کے درمیان ہو گی۔ ایک بزرگ نے اپنی عمرکا دعویٰ ننانوے سال کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے آباو اجداد نےقریباً چارسوسال قبل مسیحیت قبول کرتے ہی اس گاوں کی بنیاد رکھی اورآج یہ ان کی پانچویں پُشت ہے۔
چارسےپانچ خاندان جھاڑیوں اورخاردارپودوں کی مدد سے سرحدی باڑ بناتےاوراس کے اندر گارے مٹی کےصدیوں پرانے فن تعمیر کے انداز پر گھر بناتے ہیں۔ لکڑی کےشہتیراورگھاس پوس کی چھت دونوں جانب ڈھلتی ہوئی بنائی جاتی ہے اور یہی اس فنِ تعمیر کا حُسن ہے۔
شونو (راجیش کےوال دسمیت) دیگر 20 کےقریب افراد نے ہمیں گاوں کی محبت کی پرمپرا میں گھیر رکھا تھا۔ گوکہ ہم راجیش کمار نامی ایک مسیحی نوجوان کی ہلاکت پر افسوس اورقتل کی وجوہات معلوم کرنے گئے تھے مگر اس کے باوجود ہمارے استقبال کے لئے جھالروں سےمزین اورہاتھوں سے بنی روائتی شوخ رنگوں کی قالینیں بچھا دی گئی تھیں۔ محبت، عقیدت، چاھت، خلوص، اپنائیت اور سندھ کی چاشنی وہاں موجود ہرفرد کے چہرے پر نورکی مانند عیاں تھی۔
گاوں میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت چار یا پانچ خاندان ایک ہی چاردیواری میں رہائش پذیر ہیں۔ وسیع صحن میں بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں، گدھے، کُتے، بلیاں، مرغیاں اور مچھر آزادانہ گھوم پھر رہے تھے۔ بکری کے تازہ دودھ کی چائے سے ہماری تواضع کی گئی۔ شہری سہولیات سے محرومی کے باوجود گاوں کے باسی مطمئین زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نوجوانوں میں شرحِ خواندگی اور تعلیمی دلچسپی حوصلہ افزا تھی۔
ارے یہ کیا ہوا؟ بڑی عمر کی ایک خاتون ننگے پاوں لئے، گھا گھرا پہنے، آٹے سے بھرے ہاتھوں سمیت چہرے پر گھونگھٹ گرائے میرے قریب آن کھڑی ہوئی۔ مجھے اُس کی موجودگی کا احساس فقط اُس کے یکا یک رونے اور بے ربط سسکیوں سے ہوا۔ سندھی روایات کی پاسدار، بھیگی پلکوں اور غمزدہ لہجے میں ڈوبی وہ خاتون وجیش کمار کی ماں تھی۔ وجیش کمار جماعت نہم کا ہونہار طالب علم تھا جسے اُسی کے پرائمری اسکول کے استاد نے بڑی \”اُستادی\” اور دیگر دو دوستوں کی مدد سے خنجروں کے 14 وار کر کے قتل کر دیا تھا۔
علاقائی اور ثقافتی قدغنوں کے باعث میں وجیش کی ماں کا چہرہ تو نہ دیکھ سکا مگر ایک ماں کے زخمی جگر کا درد ضرور محسوس کر گیا۔ آنسووں سے تر اُس ماں کی آنکھیں تو نظر نہ آئیں مگر انصاف کی دہائی دیتے اور آسماں کی جانب اُٹھتے ہاتھ ضرور نطر آئے۔ زیرِ لب بڑبڑاتے راجیش کی ماں کے الفاظ، آواز اور انداز سندھ کے صوفی ازم اور مذہبی ہم آہنگی سے گندھی اِس دھرتی پر یکے بعد دیگرے بھاری سوال اُٹھا رہے تھے جن کے جواب ہم تو نہ دے سکے۔
ہم بہت کوشش کے باوجود اُس دکھیاری ماں کا درد کم نہ پائے اور ہوتا بھی کیے؟ وہ ماں جس نے اپنے 14 سالہ بچے کے جسم میں خنجروں کے لاتعداد چھید دیکھے ہوں، جس کے جسد خاکی کو چھو چھو کے ماں نے اُسے جگانے کی دہائیاں دی ہوں، جس ماں کے 14 سال کے خواب چُرا لئے گئے ہوں اُس کی تسلی کو تو آسمانوں ہی سے کسی ہستی کو اترنا پڑے گا۔
وجیش کمار کا خاندان چارسوسال سے مسیحی عقیدے کا پیروکار ہے اور اس ناطے سے وجیش پیدایشی حیثیت میں مسیحی ایمان میں قائم اوراس کی روایات کا امین، مگر مبینہ طور پراُس کی مذہبی آزادی کا یہ حق \’انہیں\’ ہضم نہ ہوا۔ گو بظاہراس کےعوامل کو دیگر رنگوں میں لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر خاموش سچ چیخ رہا ہے۔
ابتدائی رپورٹس کےمطابق تینوں حملہ آور وجیش کے بچپن کے دوست اورایک اس کا استاد تھا، جنہیں گرفتار تو کیا جا چکا ہے مگر ذرائع کے مطابق وجیش کے خاندان پر جبراً معافی اورصلح کے لئے دباو بڑھتا جاتا ہے۔ کمال تو یہ بھی ہے کہ خاندانی ذرائع اسے مذہبی آزادی پر برملا حملہ قرار دینے کی بھی جرات نہیں کر پا رہے۔ وجیش کے جسم پر خنجروں کے14 وار کئے گئے جو گاوں کے واسیوں کے چہروں پر سندھ کے صوفیانہ پن، مساوات، برابری اورمذہبی آزادی کے مستقبل پرسوال بن کر اُبھر رہے تھے۔ بلکہ سوال تو یہ بھی ہے کہ سندھ کی تاریخی دھرتی پر اب ماوں کو صوفی ازم اور مذہبی آزادی کا سبق کون پڑھائے گا؟
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).