لبرل ازم، افسر کی نجی زندگی کا تحفظ اور سیکس


ان دنوں سوشل میڈیا پر یہ بحث چل رہی ہے کہ اگر کوئی مرد افسر اپنے دفتر میں کسی خاتون سے قربت اختیار کرے اور اس کی ویڈیو سامنے آ جائے تو کیا ویڈیو کو سامنے لانے کو غلط کہا جائے گا؟ کیا لبرل ازم کے اصولوں کے مطابق اس افسر کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی نجی زندگی جیسے جی چاہے بسر کرے؟ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لبرل ازم افراد کی نجی رومانی زندگی کا تحفظ کرتا ہے اور اسے پبلک میں ڈسکس کرنا یا اس پر اعتراض کرنا لبرل نظریات کے مطابق غلط ہے۔

یہ معاملہ اس وقت تک نجی زندگی سے تعلق رکھتا ہے جب تک دونوں افراد راضی خوشی بغیر کسی دباؤ، دھمکی یا خوف کے ایسا کر رہے ہوں۔ عام طور پر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ مرد افسر ہو تو وہی جنسی ہراسانی کا مرتکب ہوتا ہے۔ امریکہ میں ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاتون اگر باس ہو تو اسے اپنے مرد ماتحتوں کی جانب سے بھی ہراسانی کا سامنا رہتا ہے کیونکہ ایک عورت کو باس دیکھ کر ان کی مردانگی مجروح ہوتی ہے۔

بہرحال ہم پاکستان کے تناظر میں ہی بات کرتے ہیں جہاں خواتین کو دفاتر میں جنسی ہراسانی سے بچانے کے لئے 2010 میں ایک قانون منظور ہوا تھا۔ یہ قانون اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ صرف خاتون ملازمین کو تحفظ دیتا ہے، سرکاری دفتر میں کسی کام سے جانے والی عام خواتین کو نہیں۔ بہرحال اس سے ہم جنسی ہراسانی کی تعریف اخذ کرتے ہیں۔

اس قانون کے مطابق ہراسانی کا مطلب ہے کہ کوئی ناگوار جنسی پیش قدمی، جنسی فیور کے لئے درخواست یا کوئی زبانی یا تحریری اظہار یا برتاؤ یا رویہ، جس کے نتیجے میں کارکردگی پر اثر پڑے یا ڈر محسوس ہو، یا ناخوشگوار یا ناپسندیدہ ماحول بنے، یا شکایت کنندہ کو ایسی کسی کوشش سے انکار کرنے پر سزا دی جائے یا اسے ملازمت کی شرط بنایا جائے۔ ایسا کرنے کو جنسی ہراسانی قرار دیا گیا ہے۔

اب ہم ایک تصوراتی منظر نامے پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ فرض کیا کہ ایک تھانیدار کسی شخص کو گرفتار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیوی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کے جنسی تقاضے پورے کرے تو پھر ہی اس کے خاوند کو چھوڑا جائے گا، ورنہ سچے جھوٹے جرم میں اس کے خاوند کو ایک لمبے عرصے کے لئے جیل بھیج دیا جائے گا۔ عورت کوئی راستہ نہ دیکھ کر تھانیدار کا مطالبہ مان لیتی ہے۔

کیا یہ جنسی ہراسانی ہے یا پھر اسے تھانیدار کی نجی زندگی قرار دے کر لبرل اس سے منہ پھیر لیں گے؟ کیا تھانیدار اپنی پوزیشن کا غلط فائدہ اٹھا کر ناجائز مطالبہ نہیں کر رہا ہے؟ کیا عورت برضا و رغبت اس تھانیدار کو جنسی تسکین فراہم کر رہی ہے یا پھر یہ ایسا ہی ہے جیسے تھانیدار نے گن پوائنٹ پر اس کا ریپ کیا ہو؟

فرض کیا کہ اس عورت نے اس وقت تو مجبور ہو کر تھانیدار کا جنسی مطالبہ مان لیا لیکن ساتھ ہی خفیہ طور پر اس نے اس عمل کی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ کر لی۔ بعد میں کسی بھی وجہ سے اس عورت نے خود کو اس کی بلیک میلنگ سے آزاد کروانے کے لئے یا پھر تھانیدار کی بدمعاشی دنیا کو دکھانے کے لئے اپنی وہ ویڈیو پبلک کر دی جس میں ان کی قربت کے لمحات قید ہیں، تو کیا عورت کو مجرم ٹھہرایا جائے گا؟ یا پھر تھانیدار کو اپنی پوزیشن اور طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے جرم میں سزاوار سمجھا جائے گا؟ اس ویڈیو کی صورت میں تھانیدار تو بدنام ہو گا ہی، لیکن عورت کی اپنی زندگی بھی اتنی سکھی نہیں رہے گی، یہ ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘ والی بالکل آخری صورت حال ہو گی۔

یہ اس عورت کے لئے کوئی چھوٹا فیصلہ نہیں ہو گا جس کا نتیجہ اس کی باقی ماندہ زندگی پر ایک تاریک سایہ بن کر ہمیشہ منڈلاتا رہے گا۔ لبرل خیالات کے مالک تھانیدار کے اس فعل کو جنسی ہراسانی اور ایک جرم ہی قرار دیں گے، اسے تھانیدار کا نجی معاملہ قرار نہیں دیا جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar