آپ نفسیاتی مریض بن جائیں گے


کل میرے ایک دوست عدنان نے مجھے یہ پیغام بھیجا۔ وہ خوش طبع ہیں لیکن حساس طبیعت کے بھی مالک ہیں۔ پاکستان میں موجود میرے کئی دوست آج کل اسی کیفیت میں مبتلا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے میرے کئی دوست ایسی کیفیت کا اظہار کر چکے ہیں۔ پلیز آپ پہلے عدنان کا یہ میسیج پڑھ لیں۔

“کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے اس تعفن زدہ معاشرے سے بھاگ جاؤں، ٹی وی سے کوسوں دور ہو جاؤں، سوشل میڈیا جب بھی دیکھو ہر وقت پریشانی، یہ فرشتہ والا مسئلہ اور اب یہ نیب چیرمین کا کام شروع ہو گیا ہے، دم گھٹتا ہے میرا اس بے حس اور مردہ معاشرے میں، دل کرتا ہے بھاگ جاو بہت دور اور بہت دور

اس بے ضمیر معاشرے میں ہر وقت گدھ منڈلاتے ہیں کہ کب کسی کی لاش گرے اور مردار کھانا شروع کریں کیا پڑھے لکھے، کیا جاہل سب بس ایک ہی لائن میں ہیں، فرشتہ کا باپ چیخ چیخ کر بول رہا ہے کہ میری بیٹی کو مزید بے آبرو مت کرو مگر یہ میڈیا کی لوگ بھاگ بھاگ کے جاتے ہیں، خدارا میرا دم گھٹتا ہے ان لوگوں سے۔

افسوس ہمیں کسی نے روایات کا درس دیا ہوتا، افسوس کسی نے بتایا ہوتا کہ اگلے انسان کی بھی عزت ہوا کرتی ہے مگر نہیں ہمیں تو بس مزہ چاہیے ہر دوسرے انسان کو بے آبرو کر کے”۔

میرے کئی دوستوں کی نجی زندگیاں اچھی خاصی پرسکون ہیں لیکن سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے وہ پریشان رہنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی لکھا تھا کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا بھر کے غم، خون، مصائب، مسائل اور دکھ بھی سمٹ کر آپ کے موبائل فون کی اسکرین تک آ گئے ہیں۔

آپ ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں، دوسروں کے دکھ درد میں ضرور شریک ہوں لیکن اپنی صحت، اپنی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں۔ ایک متوازن رویہ اختیار کریں۔ منفی کی بجائے مثبت خبریں اور خوشیاں شوق سے شیئر کیا کریں، جو لوگ آپ کے موڈ سے جڑے ہوئے ہیں، اپنی خوش مزاجی سے ان کی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں۔ ایک تنہا ذات دنیا بھر کے غم نہیں سمیٹ سکتی۔ میں اپنے جرمن دوستوں کی وال دیکھتا ہوں تو وہ سال میں شاید ہی کوئی ایک پوسٹ سیاست سے متعلق کریں لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک بڑے جرمن اخبار نے چند ماہ سے “مثبت خبریں” کے نام سے ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جو بہت کامیاب جا رہا ہے۔ یہ اخبار بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ لوگ منفی خبریں پڑھ پڑھ کے تنگ آ چکے ہیں، یہ خبریں ان کے رویوں اور صحت پر اثرانداز ہو رہی ہیں لہذا عوام کو مثبت خبروں کی بھی ضرورت ہے۔ میں اپنے ایسے دوستوں کو اکثر مشورہ دیتا ہوں کہ

-سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیں۔

– نامناسب الفاظ استعمال کرنے والے شخص کی تحریریں بالکل نہ پڑھیں۔

– انتہاپسند نظریات رکھنے والے مذہبی ہوں یا سیکولر یا کوئی اور، ایسے افراد کی تحریروں سے دور رہیں۔

– ہلکی پھلکی اور مزاح پر مبنی تحاریر بھی پڑھیں۔

– اپنی جسمانی سرگرمیاں بڑھا دیں، سائیکلنگ کریں۔ کسی قریبی باغ میں جایا کریں، ورزش کریں، کوئی جم جوائن کر لیں، کھیتوں میں نکل جایا کریں۔ کوکنگ کیا کریں، پودوں کی دیکھ بھال کا سلسلہ شروع کر دیں، سیاحت کریں اور اگر کچھ بھی نہیں کرنا تو بزرگ لوگوں کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں شروع کر دیا کریں، ان کے ماضی کے بارے میں پوچھا کریں

– دیکھیے ان چیزوں سے آپ کے خیالات میں دوبارہ تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی۔ آج کا انسان فیس بک پر بھانت بھانت کے، مجھ جیسے ناتجربہ کار، سیلف سینسرشپ سے عاری، مایوس کر دینے والے لکھاریوں اور فیک نیوز پر مبنی تبصرے پڑھے گا تو یقینا پریشان ہی ہو گا۔ پاکستان کے فیس بک لکھاری تو ویسے ہی “ماس پروپیگنڈا” کی بہترین مثال بن چکے ہیں۔ ایک لال بتی نظر آتی ہے اور سبھی میری طرح اس کے پیچھے دوڑ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ آپ کا کام ہے کہ ان کے ساتھ پاگلوں کی طرح نہ بھاگیں۔ آپ دیکھیں کہ ایسے لکھاری لائیکس کے لیے سخت سے سخت رویے اور الفاظ استعمال کرنا شروع ہو چکے ہیں اور دوسری طرف بے حسی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

– تو پلیز آپ سے گزارش یہی ہے کہ حقیقی دنیا میں زندگی تعمیر کیجیے۔ میڈیا کی تو شروع سے کوشش رہی ہے کہ وہ آپ کے جذبات سے کھیلے، آپ کی دماغ سازی کرے، آپ پر کسی دوسرے شخص کے نظریات لاگو کیے جائیں، آپ کے ذائقے تشکیل دیے جائیں، آپ پر حکمرانی کی جائے۔

لیکن آپ پر بھی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اپنی وال، اپنے دلوں اور دماغوں تک صرف انہیں رسائی دیں، جنہیں آپ پسند کرتے ہیں، جو آپ کے مزاج سے ملتے ہیں، جو آپ پر اور آپ کے خیالات پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کہیں گے کہ میں خود غرضی پر مبنی رویے کی تشہیر کر رہا ہوں لیکن یقین جانیے اتنی سی خود غرضی آپ کی خوشیوں کے لیے ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).