خبردار! یہاں سیاست صحت کے لیے مضر ہے


جی عنوان آپ کو چونکنے پہ مجبور کررہا ہے تو چلئے تاریخ کے دھندلکوں میں جھانک لیتے ہیں۔ یہ مملکت خداداد جس پہ ہر طبقہ خاص نے اپنی مرضی و نظریے کی ٹوپی رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے نصیب میں ہمیشہ ہنی ٹوپی ہی رہی۔ محمد علی جناح کی بے مثل سیاسی جدوجہد سے تشکیل پاتی یہ مملکت کسی عسکری محاذ آرائی کا نتیجہ نہیں تھی یہ سیاست کا تحفہ خاص تھا۔ وہی محمد علی جناح کراچی کے سفر میں ایمبولینس میں بے یار و مددگار یوں پڑا تھا کہ بقول فاطمہ جناح مکھیاں اس کے چہرے پہ بھنبھناتی تھیں اور ان کو اڑانے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔

پھر لیاقت علی خان جیسا لیڈر ملا ہمیں تو اس کو بھی متنازع اور گندا کردیا گیا اور گولی مار کر شہادت کا عظیم رتبہ دے دیا گیا مگر کس نے؟ اس سوال کے پوچھنے کی اجازت ہے نہ ضرورت۔ پھر اسٹیبلشمنٹ راج تھا اور پاجاموں کی طرح بدلتے وزیر۔ اس ملک کے بانیان میں سے ایک فاطمہ جناح اپنے وقت کے آمر کے سامنے آئیں تو غدار کہلائیں۔ یہ سوال شاید کبھی کسی نے کرنے کی یا اٹھانے کی زحمت کی ہو کہ گر وہ بھی غدار تھیں تو پھراس ملک کا وفادار کون ہے؟

ان کی موت بھی اک اسرار تھا غسالہ کے بقول ان کے پیٹ میں سوراخ تھا جہاں سے خون اور پیپ بہ رہے تھے اور جسم پہ متعدد زخم تھے۔ اس کے بعد ایک لیڈر ملا۔ یاد رکھیے لیڈر یا رہنما انسان ہوتا ہے، فرشتہ نہیں، فرشتے تو شاید صرف پس پردہ غیبی حکومت بناتے اور مدد کیا کرتے ہیں۔ اس لیڈر کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا یہ ہماری تاریخ کا وہ باب ہے جو سیاہ ہے۔ ہم نے سیاست کا یہ انعام دیا اسے کہ اسے تختہ دار پہ لٹکا دیا اس کے بعد ایک طویل عرصے کے لیے ظلمت وقت ضیا کہلائی۔

اس وقت کے منتخب وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو مدت پوری کیے بغیر خوب رسوا کر کے چلتا کیا گیا۔ اچھا شاید آپ نے غور کیا ہو کہ یہ ساری رسوائی صرف کار سیاست کے چہرے پہ ملی گئی۔ ان کے ”ہمنوا“ جو قوالی میں ساتھ پوری طرح عزل سرا تھے وہ ہمیشہ نادیدہ رہے، کسی جج، کسی جنرل، کسی نوکر شاہی کے حصے میں کوئی رسوائی نہیں آئی۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ذلت اور رسوائی کی ساری رسوائی، لوٹی ہوی ساری دولت صرف سیاست کے بینک میں چلی گئی اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ تمام تر الزامات و رسوائی کے باوجود وہ دولت نہ کبھی واپس آئی اور نہ ہی کبھی آئے گی۔

پھر کیا ہوا، وہ سیاست دان جن کی خامیاں، غلطیاں بردداشت کرکے اپنے چناؤ کا اختیار استعمال کرکے عوام نے انہیں تجربہ کار اور پکا ہوا پھل بنایا تو پھر باغ میں لٹیرے آموجود ہوئے۔ جمہوریت و سیاست میں مری دلچسپی بس یہ ہے کہ چناؤ کا حق میرا ہے اور بطور علم سیاسیات کی ایک ادنیٰ طالب علم کے اس علم کی اساس ایک اسی چناؤ کے اختیار پہ قائم ہوتی ہے کہ چناؤ کا حق قائم کیا جاسکے مگر ارض پاکستان میں چناؤ کے اس ایک اختیار کو جیسے روندا گیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

یہاں باغ ہمیشہ لٹیروں کی زد میں رہا، اس دفعہ شکار بے نظیر بھٹو تھیں۔ کوئی اندھی گولی آئی اور اک کہنہ مشق سیاست دان کو نگل گئی۔  پھر نواز شریف کا جو حال ہوا اور ہو رہا ہے، وہ ابھی تاریخ نہیں، ہمارا حال ہے، جو بہت بدحال ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی بدقسمتی رہی کہ وہ اداروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے۔ شوق حکومت میں جو محض رسوائی و ذلت کا کانٹوں بھرا تخت تھا، عوامی طاقت کے باوجود کچھ پنکچرز لگوا کر اپنا استحصال کرواتے رہے۔

اس کی بدترین مثال موجودہ حکومت ہے جسے حکومت کہنا شرمندگی لگتا ہے۔ یہ مسخروں کا ٹولہ ہے جو عوام کو شیخ چلی کی طرح خواب دکھا کر بری طرح لوٹ گیا۔ اس بری طرح کہ عوام سیاست کے حرم سے بالکل متنفر ہوکر باہر ہو جائیں توبہ تائب کرلیں اور ”اصل مالکوں“ کو آواز دیں کہ آئیے جناب ہمیں بوٹوں کی ٹھوکر میں رکھیے کہ ہم اسی لائق ہیں اور ریاست پاکستان کا سلوگن ٹھرے۔ خبردار یہاں سیاست مضر صحت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).