بلاول بھٹو اور مریم نواز: سیاسی قیادت میں جوہری تبدیلی


اس بات کا کریڈٹ یقینا بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کی تمام قابل ذکر جماعتوں کو ایک میز پر لا بٹھایا۔ بلاول کی طرف سے دی جانے والی دعوت افطار کے بعد سے حکومتی صفوں میں ہلچل (بلکہ ہیجان) کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر یہ اعلان کہ عید کے بعد ایک آل پارٹیز کانفرنس برپا ہو گی۔ تمام اپوزیشن مل بیٹھے گی اور حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ ہو گا۔ اپوزیشن کن مطالبات کے ساتھ سامنے آئے گی؟ تحریک کی نوعیت کیا ہوگی؟ احتجاج پارلیمنٹ کے اندر کیا جائے گا یا سڑکوں پر؟ اپوزیشن پارلیمنٹ سے استعفوں کا آ پشن استعمال کرئے گی یا نہیں؟ تحریک کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہو گا یا اسے رخصت کرنا؟ ان سوالوں کے جوابات تو اے۔ پی۔ سی کے بعد ہی مل سکیں گے۔

فی الحال مگر اس دعوت افطار کے نتیجے میں جو حقیقت پوری طرح ابھر کر سامنے آئی، وہ ہے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ہونے والی جوہری تبدیلی۔ یعنی بلاول بھٹو اور مریم نواز۔

بلاول بھٹو کے پختہ اور مدبرانہ طرز سیاست نے میڈیا اور عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔ مختلف قومی معاملات پر بلاول کا پختہ نقطہ نظر، پر اعتماد لہجہ، چہرے کے تاثرات اور جرات مندانہ بیانیے نے مبصرین کو چونکایا ہے۔ تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو بلاول میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی فکری اور نظریاتی شبیہہ دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ یہ پہلے سے طے تھا مگر اب واضح ہو چلا ہے کہ بلاول بھٹو ہی پیپلز پارٹی کا مستقبل ہیں۔

مریم نواز کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ مریم نہ تو پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، نہ ان کے پاس بلاول کی طرح بھاری بھرکم عہدہ ہے۔ ابھی حال ہی میں انہیں پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا ہے۔ یعنی اب وہ پارٹی میں موجود درجنوں نائب صدور میں سے ایک ہیں۔ تاہم یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ کسی رسمی عہدے کے بغیر، مریم نے قومی سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مستقبل میں پارٹی میں کوئی لیڈر نظر آتا ہے تو وہ شہباز شریف ہیں، نہ شاہد خاقان۔

احسن اقبال ہیں، نہ حمزہ شہباز۔ اور نہ کوئی اور۔ اگر کوئی شخصیت عوام کی اور میڈیا کی توجہ حاصل کر نے کی صلاحیت اور، نواز شریف کا بیانیہ پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کی مہارت رکھتی ہے تو وہ مریم نواز شریف ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ وہ کارکنوں کے جذبات گرمانے، ان میں تحرک پیدا کرنے، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مریم نے کسی عہدے کے بغیر بھی یہ کام کر دکھایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں بھی پارٹی کی صدارت رسمی طور پر شہباز شریف کے پاس ہی رہے۔ مگر پارٹی کا اصل چہرہ مریم نواز ہی ہوں گی۔ مریم نواز نے اپنے عمل اور کردار سے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہی نواز شریف کی سیاسی وارث اور جانشین بننے کی اہل ہیں۔

یاد رہے کہ اس دعوت افطار میں تین سابق وزرائے اعظم (شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی) اور ایک سابق صدر (آصف علی زرداری) موجود تھے۔ مگر میڈیا اور عوام کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز ومحور صرف مریم نواز تھیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کی سیاست میں نظریاتی اور فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ الفاظ اور انداز بیاں الگ الگ سہی، مگر حقیقت یہی ہے کہ۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ہی مریم اور بلاول کا بیانیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).