ایک پختون پاکستانی کا تپتا ہوا کالم


یہ پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کا ذاتی بیانیہ ہے پختون قوم کا اجتماعی بیانیہ ہرگز نہیں لیکن ٹھہرئیے پہلے ماضی قریب کے اس خوں چکاں اور بے رحم ماضی پر نگاہ کرتے ہیں جس نے وزیرستان کی روایت پرست اور تنہائی پسند پختونوں کو انسانیت سوز مظالم سے دوچار کیا۔ کون سا ظلم ناروا تھا جس نے ان کے درو بام نہیں اجاڑے۔ کون سا ایسا خاندان تھا جن کی دہلیز پر خون ناحق نہیں ٹپکا۔ کون سا ایسا گھر تھا جس کے مکینوں نے رُلا دینے والی ہجرت کا عذاب نہیں سہا اور کون سا ایسا فرد تھا جس نے دہشت اور بربریت کے موسموں میں اپنی سانسیں نہیں گنیں۔

ظاہر ہے ان حالات سے ایک مظلومیت بھرے رد عمل کا اُبھرنا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا ایک گمنام نوجوان منظور پشتین اپنے آنسوؤں سمیت ایک خوفناک نعرے کے ساتھ منظر پر اُبھرا اور متاثرہ منطقے میں بلخصوص مقبولیت کے معراج پر پہنچا جو ایک منطقی بات تھی۔

ہمدردی کی ایک توانا لہر بھی اس کی مظلومیت حمایت میں اُٹھی اور یہ لہر اتنی بلند تھی کہ بعض قابل گرفت اور قابل اعتراض عوامل بھی اس کے پیچھے عنقا ہوتے گئے لیکن پھر حالات قدرے پرسکون ہوتے اور ان میں ایک ٹھہراؤ آتا گیا حتٰی کہ وزیرستان کے لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے، وہاں زندگی نے پھر سے رفتار پکڑلی، یہاں تک کہ دو ہزار اٹھارہ میں منظور پشتین کی جماعت پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے الیکشن میں بھی حصہ لیا اور وزیرستان کے دو حلقوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔

اب وہ وقت تھا کہ پی ٹی ایم جذباتی اور حقیقت سے ماوراء سوچ اور نعروں کو الوداعی ہاتھ ہلا کر سنجیدہ اور عملی سیاست کا رُخ کرتی علیحدگی اور تخت و تاراج کی بجائے انسانی حقوق کی بحالی جمہوریت کے استحکام پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروں کو اپنے اپنے آئینی حدود میں رہنے کا بیانیہ اُٹھاتی ماضی کے خوں آشام تجربے سے دمکتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کی جاتی،

دانشور طبقات سیاسی کارکنوں سول سوسائٹی اور وکلاء سمیت فعال طبقے کے ساتھ ثمر بار مشاورت ہوتی لیکن حیرت انگیز طور پر پرسکون ہوتے حالات میں بھی پی ٹی ایم کے بیانئیے سے ہوش و خرد کی بجائے آتش فشانی اور شعلہ باری ٹپک رہی ہے۔

اور آخر ایسا کیوں نہ ہو؟
کیونکہ
ہر وہ شخص جو کسی سیاسی قبیلے سے محروم ہے جس کی سیاسی تخیل کی پرواز ”پاکستان توڑ دو“ کے بام و در تک محدود ہے۔ جس کی ہر تقریر کی تان اسی پر ہی ٹوٹتی ہے کہ خدا نخواستہ پاکستان ٹوٹ جائے تو ہماری گلی کوچوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گے۔

ان سب سیاسی جیب کتروں نے مظلوم لیکن بصیرت سے عاری نوزائیدہ پی ٹی ایم کی بے در و دیوار سرائے کا رُخ کیا۔ ساتھ ساتھ کچھ ایسی فیشن ایبل خواتین بھی ساتھ ہو لیں جن کے سیاسی جدوجہد کا خانہ تو خالی ہے البتہ وہ این جی او مارکہ ضرور ہیں اور انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ”مارکیٹ“ میں ”باغیانہ پن“ سب سے مہنگا ”سودا“ ہے اور اسے بیچنے اور مارکیٹ کرنے کا طریقہ واردات بھی انہیں خوب معلوم ہے۔ ان سب لوگوں نے ایک معصوم مظلومیت کے ساتھ منظر پر اُبھرنے والے پی ٹی ایم کے دھلیز پر پڑاؤ ڈالا اور اپنے اپنے ایجنڈے اگلنے لگے جس میں سرفہرست پاکستان توڑنے اور علیحدگی کی ”نوید“ سنانے کانعرہ ہے۔

کسی زمانے میں کمیونسٹوں کی پے رول پر رہنے والے ریٹائرڈ پروفیسر نے اپنی بیٹی کی ان ”سازگار حالات“ میں خوب مارکیٹنگ کی جس کے کم از کم دو فائدے تو ہوئے ایک یہ کہ خواتین کو بھی ایک شیخ رشید ہاتھ آیا اور دوسرا یہ کہ موصوف کے آباؤ اجداد سے چلی آتی تنگدستی میں خاطر خواہ کمی آئی۔

ایک صاحب ہیں محسن داوڑ جو پی ٹی ایم کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔ موصوف نے اپنی نوجوانی آسٹریلیامیں گزاری اور آج کل معصوم وزیرستانیوں کے غم میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خود کو پاکستانی کی بجائے افغانی کہنے لگا ہے کیونکہ وہ قومیت اور جغرافیے کی ایک نئی تشریح لے کر آیا۔

تو بھئی کس نے روکا ہے آپ کو جاؤ قندھار، جلال آباد یا کابل میں جہاں مرضی ہو بس جاؤ لیکن یہ فیصلہ انفرادی طور پر آپ ہی کو کرنا ہے یہ نہ تو پختون قوم کا بیانیہ ہے اور نہ ہی فیصلہ کیونکہ آپ ڈھونڈ کر ایک آدمی تو لے آئیں جو لاہور پر جلال آباد کو فوقیت دے یا اسلام آباد کی بجائے قندھار میں رہنے کو تر جیح دے حتی کہ آپ خود بھی بمشکل ایسا کرنے کو تیار ہوں گے۔

آپ ایک قومی اسمبلی کے حلقے کی نمائندگی تو کر رہے لیکن پختونوں کے اجتماعی شعور اور سیاسی فیصلوں کا آپ کو اختیار تو کیا شناسائی تک بھی نہیں۔ ورنہ آپ تاریخ میں جھانک کردیکھتے کہ خان عبدالغفار خان پختونوں کے ایک قابل احترام اور طاقتور سیاسی حجم رکھنے والے لیڈر تھے جبکہ ان کے بیٹے ولی خان کی سیاسی بصیرت سے ان کے دشمنوں کو بھی انکار نہیں لیکن اس سب کے باوجود آزاد پختونستان کے نعرے کو پختون منطقے میں کتنی پزیرائی ملی؟

یہ ان کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ بعد میں یہ نعرہ ان کے سیاسی جلسوں میں مفقود ہونا شروع ہوا بلکہ بعد میں وہ فاطمہ جناح سے نواز شریف تک کے سیاسی اتحادی بھی بنے۔ اور پھرکہاں عبدالصمد اچکزئی اور جی ایم سیّد جیسے جہاندیدہ سیاستدان جو اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ چکے تھے اور کہاں محسن داوڑ اور اس کا مضحکہ خیز کا بیانیہ!

کہنا یہ ہے کہ جب وزیرستان کے لوگوں پر مظالم توڑے گئے تو میں ان چند لکھاریوں میں سے ایک تھا جس نے تسلسل کے ساتھ اس ظلم کے خلاف لکھا اور بغیر کسی خوف کے لکھا۔ بلکہ بعض اوقات تو ”سرخ لائن“ کو خاطر میں لائے بغیر بھی لکھتا رہا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیاسی بھگوڑوں این جی او مارکہ خواتین یا بے بصیرت نوجوانوں کے سامنے سرنڈر ہوا جائے اور صرفِ نظر کیا جائے کہ یہ ”رد عمل“ ہے کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اگر کوئی میری (ماں ) وطن کے حوالے سے لکیر کو پار کر کے رد عمل دکھائے گا تو پھر جواب کے لئے بھی تیار رہے کیونکہ ایک پختون ہونے کے ناتے جواب دینا بھی آتا ہے اور اس کا حوصلہ بھی ہے۔

اور ہاں جب محسن داوڑ جیسے برائے نام انقلابی امریکہ اور آسٹریلیا میں اپنی نوجوانی کے روز و شب کا لطف اٹھا رہے تھے تو ہم لوگ دلآزار موسموں میں جبر کے خلاف لڑتے اور لہولہان ہوتے رہے اسی زمین پر اسی مٹی میں اسی وطن کی خاطر۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).