بھارتی جنتا پارٹی کی کامیابی اور سیکولرزم کی شکست


بھارت میں بی جے پی کی واضح اکثریت بھارتی میں ہندو انتہا پسندی کی قلعی کھول رہی ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھارتی مسلمانوں کو الیکشن میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی حالیہ پانچ برسوں میں جہاں کشمیر میں ہزاروں کشمیریوں کو قتل کیا گیا وہیں تاریخ کے بدترین تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا جس میں پیلٹ گن سے لوگوں پر ڈائریکٹ فائر کرنا، گھروں اور فصلوں کو مسمار کرنا شامل ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں بھاجپا اور ہندو انتہا پسندوں نے گائے ذبح کرنے اور اس کا گوشت بیچنے کے الزام میں دسیوں مسلمانوں کو قتل کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ جہاں ایک جانب بھاجپا کا پرتشدد چہرہ کھل کر سامنے آ رہا تھا وہیں دوسری جانب پروپیگنڈا کے تمام چینل بھی استعمال کیے گئے۔ سوشل میڈیا سے لے کر بالی ووڈ اسٹارز تک کو مودی حکومت نے اپنی کمپین کے لیے استعمال کیا۔ حال ہی میں بالی ووڈ کے چیدہ چیدہ اداکاروں نے موودی سے ملاقات بھی کی تھی۔ بھارت کی قومی اسمبلی کے لیے 22 مسلمان امیدواروں نے اپنی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جن میں بھارتی ریاست گجرات کے متحرک سیاسی رہنما اسد الدین اویسی سر فہرست ہیں۔

لیکن اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی سرکار نے بین الاقوامی سطح پر ان واقعات کو زیادہ اہمیت حاصل نہی ہونے دی اور مسلسل پانچ سال غیر ممالک کا دورہ کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے سعوی عرب سے بہت اچھے تعلقات استور کیے اور سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان نے مودی کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا جبکہ دوسری طرف دبئی میں مندر کی تعمیر بھی حالیہ پانچ برسوں میں مودی کا ایک اہم کارنامہ رہی۔

مودی سرکار نے جہاں گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کے خلاف بھی پروپیگنڈہ کا ہر حربہ استعمال کیا۔ بات اوڑی واقعے کے بعد سرجیکل اسٹرئیک کی ہو یا پھر بالاکوٹ میں بم گرانے کی جہاں مودی حکومت نے دنیا کے سامنے انتہائی شرمناک جھوٹ بولے وہیں بھارتی میڈیا نے اس جھوٹ کا اتنا واویلا کیا کہ یہ سب سچ لگنے لگا۔ تعمیر و ترقی کے اعتبار سے مودی حکومت کے پانچ سال کسی بھی طرح بہتر نہیں ہیں اور بھارت کے سیاسی پنڈت، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکن جن میں معروف مصنفہ ارون دھتی رائے شامل ہیں نے مودی حکومت کو ہمیشہ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ کانگریس نے انتخابات جیتنے کے لیے بھی تعمیر و ترقی میں ناکامی کو ہی زیادہ پیش کیا۔

کشمیر پر بھارتی حکومت کا بیانیہ سب کے سامنے ہے جہاں ایک جانب گزشتہ پانچ سالوں میں کشمیریوں کی نسل کشی بام عروج پر تھی وہیں بھارتی آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کی بھی بھر پور کوشش کی گئی۔ بھارتی آئین کے یہ آرٹیکلز ریاست جموں کشمیر کو بھارت کی ڈومینین میں خصوصی اہمیت دیتے ہیں جس کی رو سے کوئی بھی غیر ریاست شخص نہ ریاست میں زمین خرید سکتا ہے، نہ جائیداد بنا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نوکری حاصل کر سکتا ہے۔

بی جے پی نے موجودہ انتخابات میں بھارتی آئین کی ان شقوں کو ختم کرنے کے وعدے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا جبکہ دوسری جانب کشمیر کے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے ریاست کی 1953 کی حیثیت اور صدر اور وزیر اعظم کی بحالی کے ایجنڈے پر الیکشن میں شامل ہوئی جس کے بعد مرکز اور کشمیر کی یہ لڑائی مزید دلچسپ ہو جائے گی۔ کشمیر سے نیشنل کانفرنس نے ساری تین نشستیں جیت لی ہیں جبکہ جموں اور لداخ کی تین نشستیں بی جے پی نے جیتی ہیں۔

بھارت میں اس وقت علیحدگی کی 63 تحریکیں چل رہی ہیں جن میں ریاست جموں کشمیر، اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور پنجاب سمیت کل 17 تحریکیں انتہائی مضبوط ہیں۔ ان میں کچھ تحریکیں مذہبی اور کچھ لسانی بنیادوں پر استوار ہیں۔ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت کل آبادی کی نصف سے زیادہ ہے۔ اگر مودی حکومت کا رویہ گزشتہ پانچ سالوں کی طرح ہی رہا تو شاید آنے والے مزید چند سال خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).