کتاب کا وزن نہیں ہوتا


ہم آج جس دور میں جی رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ انسان نے ہر شعبہ زندگی میں جس قدر نئی ایجادات سے زندگی کو سہل بنا لیا ماضی میں کہیں بھی اس کا عکس نہیں ملتا۔ ہم اگر اس ترقی کے پیچھے چھپے محرکات ڈھونڈنے نکلیں تو ہمیں باآسانی دو عوامل ملیں گے، اوّل غور و فکر اور دوسرا علم۔ کسی بھی انسان نے جب پہلی بار اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر کچھ دریافت و ایجاد کیا ہوگا تو اس کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوئی ہوگی کہ کسی طرح یہ دوسرے لوگوں تک پہنچ سکے اور اگلی نسلوں تک محفوظ رہے تو شاہد اسی خواہش نے ہی کتاب کو جنم دیا ہوگا۔

ہم تک جو بھی علم پہنچا ہے جس کی بدولت آج انسانی زندگی میں آسائشات اپنے عروج پر ہیں وہ علم کو کتاب کی شکل میں محفوظ کر کے اگلی نسلوں تک بحفاظت پہنچانے کی بدولت ہی پہنچا ہے۔ لہذا جب انسان نے غور کرنا شروع کیا کہ علم کو آگے کیسے منتقل کیا جائے تو اس سوچ کے ساتھ ہی کتاب کا خیال ذہن انسانی پر وارد ہوا ہوگا۔ اس لیے ہی کتاب کو دوست بھی کہا جاتا ہے۔

کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہم ترقی یافتہ معاشرے میں بسے لوگوں کی کتاب بینی کو دیکھ کر باخوبی لگا سکتے ہیں۔ اگر ہم جرمنی میں ہی دیکھیں تو لوگ پبلک مقامات پر ٹرین و بسوں اور تفریح گاہوں میں مطالعہ کتب میں مصروف نظر آئیں گے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جو معاشرے کتاب کے قریب ہوتے جاتے ہیں وہ ہتھیار سے دور۔

اگر ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں تو کیا ہمیں پاکستان میں مطالعہ کے شوقین لوگ دکھائی دیتے ہیں؟ یقیناً وہاں بھی لوگ مطالعہ کے شوقین ہیں وہاں بھی کتب چھپتی ہیں فروخت ہوتی ہیں مگر ایک خاص سوچ جو مطالعہ جیسے عظیم کام کی حوصلہ شکنی کرتی ہے وہ ان لوگوں کا عمومی رویہ ہے جو خود تو مطالعہ نہیں کرتے لیکن کتب بینی کرنے والے افراد پر اپنی جلی کٹی باتوں سے طنہ ذنی کرتے ہیں جیسے ”اتنا نہ پڑھا کرو یہ ایک فضول کام ہے“۔

ایسے جملے نا صرف پاکستان میں سننے کو ملتے تھے بلکہ یہاں بھی اپنے کچھ پاکستانی احباب سے سننے کو ملے کہ ”کیا پروفیسر بننا ہے“۔ ابھی حال ہی میں ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب میری ایک فیس بک پر بنی دوست جو کافی پڑھی لکھی ہیں وہ پاکستان سے جرمنی واپس آ رہی تھیں ان سے درخواست کی کہ ایک اردو کتاب جو جرمنی میں دستیاب نہیں ہے کیا آپ لیتی آئیں گی تو ان کا جواب تھا کہ ڈاکیومنٹس، دوائی، خط اور کتاب کے لیے میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے صرف کتاب ہی منگوانی ہے۔ بات منقطع کر کے میں نے زیر لب کہا کہ کتاب کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں دو قسم کی سوچ پائی جاتی ہے ایک تو وہ جو مطالعہ کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں کرتے۔ اب جو نہیں کرتے تو ایسا نہیں ہے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں

جانتے بلکہ وہ بھی پڑھے لکھے ہیں مگر وہ مطالعہ کرنا ایک پاگل پن گردانتے ہیں اور مطالعہ کرنے والے کو ایک خلائی مخلوق سمجھتے ہیں۔ اور ان جیسے رویوں سے ہی صاحب مطالعہ افراد ان لوگوں سے کٹ جاتے ہیں اور الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ ویسے ہی وہ ایک اندرونی جنگ کی سی کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ کتابوں کے سچ اور معاشرے میں پھیلی جھوٹ و فریب کی وبا سے بچاؤ کی جنگ۔

ہمارے ہاں جہاں بہت سی تقسیم ہے زبان کی بنیاد پر، عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر اور علاقائی بنیاد پر وہاں ایک اور تقسیم بھی ہے، کتاب کے پڑھنے والے اور نا پڑھنے والے کی۔ جی ہاں کتاب نہ پڑھنے والوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کوئی گناہ کر رہے ہیں اور وہ اپنی باتوں اور رویوں سے جانے کیوں ان کی دل آزاری کرتے ہیں اور فقرے کستے ہیں یعنی القابات دیے جاتے ہیں کہ انسان خود ہی شرمندہ ہوتا ہے کہ بس۔

حسن رضا، جرمنی
Latest posts by حسن رضا، جرمنی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).