تہذیب اور خوشحالی۔ کس چڑیا کا نام ہے


پرانا بوسیدہ محاورہ ہے کہ الٹے بانس بریلی کو۔ کیوں یاد آیا کہ پٹرول کی قیمتیں دیکھ کر رکشہ چلانے والوں نے انجن نکال کر گدھے کے گلے میں رسی باندھ کر رکشے چلانا شروع کردئیے ہیں۔ ویسے تو اب شہر اندرون کے علاوہ تمام سڑکوں پر تانگوں کو چلنے کی بھی آزادی دے دینا چاہئے کہ اورنج ٹرین اور دوسری ٹرین چلانے سے عوام کو فائدہ کم ہی ہوا ہے۔ اپنی عوامی سواری تو اب تک تانگہ ہے۔

ہم چار آنے سواری تانگے پر لکشمی چوک سے لوہاری اور کبھی کبھی سمن آباد بھی چلے جاتے تھے۔ جس شخص کی جیب میں ایک روپیہ ہوتا، وہ شیخی دکھاتا ہوا، سالم تانگہ لیکر شہر کی سیر کو نکل جاتا تھا۔ پہلے تو امرا کے سنہرے سجے ہوئے تانگے ہوتے تھے۔ اس کی گھنٹی بھی انوکھی ہوتی تھی۔ سنہری کھسہ اور سفید کلف لگا جوڑا پہنے منہ میں قوام والا پان اور ہاتھ میں غیرملکی سگریٹ کی ڈبی اٹھائے، مال روڈ پر گاڑی کی طرح اپنا تانگہ چلاتا تھا۔

پرانی کاریں بیچنے والوں کا بیڑہ غرق وہ ان تانگوں کا بدل بن گئیں۔ اس زمانے میں خال خال گاڑیاں جیسے میاں افتخار الدین، نواب ممدوٹ، دولتانہ صاحب اور قزلباش فیملی کی نظر آتی تھیں۔ لیکن پھر امریکی امداد سے لیکر گندم تک ہمارے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے لگی۔ فارن آفس کے ذہین افسران کو، امریکی تربیت دینے اپنے ملک لےجاتے، یوں بظاہر امریکہ ہمارا دوست ہی کیا پالن ہار بن گیا۔ ہم نے فنی تعلیم کو بس انجینئرنگ اور ڈاکٹری تک محدود رکھا۔ ایم اےاردو کی بھرمار ہوگئی۔

ایوب خاں کے زمانے میں اسکول بنائے گئے، تو وہاں چوہدریوں کے باڑے بنا دیئے گئے، اس کو ہم نے سلسلہ تعلیم سمجھا، جو آج تک رواں ہے۔ میٹرک پاس بچے کو نہ کوئی شعر یاد ہوتا ہے، نہ انگریزی کا فقرہ لکھ یا بول سکتا ہے۔ نقل کرنے اور فرسٹ ڈویژن لینے کے باوجود سرکاری کالجوں میں مشکل سے داخلہ اور اس طرح ایم اے اسلامیات معاشرتی علوم کرنے کے بعد، در بدر نوکری کی تلاش، کوشش بھی یہ کہ سرکاری نوکری ملے تو عیش، کہ میں بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو جانتی ہوں جنہوں نے بس قسم کھانے کو کبھی کبھی کلاس لی ہو۔ ہم نے ایسے اچھے استاد بھی دیکھے ہیں کہ ان کی کلاس میں دوسری کلاسوں کے بچے بھی ضد کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ بہت کچھ سیکھتے تھے۔

اس وقت بڑا شور ہے سیاحت کو فروغ دینے کا، کوئی پوچھے، کوئی نصاب ہے، کوئی باقاعدہ کورس ہے۔ کسی گیسٹ ہائوس کے باتھ روم کی ٹونٹی سلامت نہیں ہے۔ پہلے بے چاری بابو ٹرین، کلرکوں کے لئے چلا کرتی تھی، وہ بھی بند کردی گئی۔ پشاور سے خصوصی ٹرین درہ خیبر تک چلتی تھی (اس میں تو ہم نے بھی سفر کیا ہے) اب ٹرینوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سال کے آخر میں خسارے کا منظرنامہ، ہماری منصوبہ بندی کا پول کھول دے گا۔

امریکہ میں شکاگو سے کیلی فورنیا تک، وہی پرانی کوئلے والی ٹرین چلائی جاتی ہے۔ وہ مسافروں کو پرانے دیہات دکھاتی، ٹھہرتی، ایک ہفتے بعد واپس آجاتی ہے۔ اس کی بکنگ سال پہلے کرانا پڑتی ہے۔ بالکل ایسے کہ آپ نے تھیٹر دیکھنا ہو تو ڈھائی سال تک کی بکنگ تو میں دیکھ آئی ہوں۔ یہی اوپرا ہائوسز اور دیگر فنی اداروں کا حال ہے۔ ہمارے ہاں تو تھیٹر ہو کہ سیاست، بدزبانی اور بدتہذیبی ہی کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔

ایک خاتون اگر پیرنی ہے تو آخر خاتون اول ہے۔ اس کے نام کے ساتھ جو لغت استعمال کی جاتی ہے، ایسا تہذیب یافتہ معاشروں میں نہیں ہوتا تھا۔ ٹیلی وژن اسکرین پہ بیٹھ کر خواتین ایک دوسرے کو ایسے غلیظ طعنے دیتی ہیں کہ چینل بدلنا پڑتا ہے کہ آگے کیا ہے وہی لوگ جو کل ایک پارٹی میں تھے۔ آج طوطوں کی طرح دوسری زبان بول رہے ہیں۔ جان کیری نے اتنا اہم بیان دیا ہے کہ سی آئی اے، جو کچھ کرتی ہے وہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔

یہ ہماری پالیسی ہے۔ ماشاءاللہ یہ ایسا موضوع تھا جس پر ہمارے اکڑے اینکر بات کرتے، وہ مسلسل صاحب اور صاحبہ کے موضوع پہ اڑے رہے۔ یہ تو بحث کرتے کہ چنگیز خان کے بعد عراق کی تہذیب و ثقافت کو برباد کر کے لوگوں کو بے گھر کر کے، بے خطا عراقی صدر کو پھانسی دیکر بار بار دنیا بھر کو دکھاتے رہے اور امریکیو تم کو شرم اب بھی نہیں آرہی جبکہ گولان کی پہاڑیوں کو تم غلط طریقے پر یہودیوں کو دے رہےہو۔

تم مسلسل شام اور لبنان کے لوگوں پر بم برسا رہے ہو۔ ایک اسلامی ملک کی فوج کے ساتھ مل کر حملے کرتے ہو مگر یہ باتیں ہمارے میڈیا والے شاید اسلئے نہیں کرتے کہ کہیں ان کو امریکی دعوت نامے ملنے بند نہ ہوجائیں۔ دیگر سہولتوں کا تو بیان ہی کیا۔ جہاں تک صاحب یا صاحبہ کہنے کا تعلق ہے۔ شکر کریں اس شخص نے احترام کا کوئی حرف تو استعمال کیا کہ آج کے سیاستدان ایک دوسرے کی خلوتوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

واپس آئیے گدھے کے ذریعے رکشہ چلنے کی طرف۔ ابھی تو اور انوکھی مسالے دار باتیں ہورہی ہیں۔ کوئی ڈھائی ہزار کھوکھے والوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ اپنےکاروبار کو بند کردیں گے کہ روز ایف بی آر والے آکر روز کا حساب اور ٹیکس مانگ رہے ہیں۔ خیر یہ ان لوگوں کا فرض ہے مگر ٹھیلے پہ رکھے چاولوں کا پتیلا اور دال کا دیگچہ، وہ آپ کو کیا ٹیکس دےگا۔ ساری رات جاگ کر ان کی بیویاں گول گپے، سندھی بریانی، دال چاول پکاتی ہیں۔ وہ ریڑھی پہ رکھ کر بیچتے ہیں۔

ان کو تو حکومت کو سستا بازار بنا کر دینا چاہئے جہاں عورتیں اور مرد چاٹ، دہی بڑے، سموسے پکوڑے اور کھانے کا سامان بیچیں۔ یہ بھی لازمی ہو کہ کوئی مال 25روپے سے زیادہ کا نہ ہو۔ دیکھنا کیسے عورتیں اور مرد، دونوں گھروں میں خوشحالی لائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).