کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں!


قرآنِ پاک میں ہے کہ ”اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں“ اس آیت مبارکہ کے مفہوم کو اگر مدِ نظر رکھا جائے تو یہ آیتِ مبارکہ ہمارے وزیراعظم صاحب کے ان ارشادات و فرمودات کے لئے ہی نازل کی گئی لگتی ہے، جو وہ پچھلے بائیس سال سے پاکستان کی عوام کے سامنے گاہے بگاہے بیان کرتے آئے ہیں۔ اور پھر اقتدار میں آکر اس کے بالکل برعکس اقدامات کر رہے ہیں۔ ان ارشادات و فرمودات نے 2011 کے آخر میں باقاعدہ دعوؤں اور وعدوں کی شکل اختیار کرلی۔

2011 میں ہی خان صاحب کی جماعت کی نوک پلک سنوارنے کا عمل باقاعدہ سے شروع کیا گیا تھا، مختلف جماعتوں سے مختلف الخیال، مختلف نظریات، فرقات، مختلف قبائل و قماش سے تعلق رکھنے والے بھانت بھانت کے لوگ ٹولیوں کی صورت میں تحریک انصاف میں شامل کرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے پہل یہ توڑ پھوڑ پیپلز پارٹی سے شروع کی گئی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد یہ کارروائی مسلم لیگ ن میں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آہستہ آہستہ تیزی پکڑتا گیا اور پھر پناما ہنگامے اور میاں نواز شریف، مریم نواز کی نا اہلی اور پھر ان کی نیب کے ذریعے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی میں لوگ بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح شامل کروائے گئے۔

آخری دوسال تو باقاعدہ خان صاحب کو لانچ کرنے کے لئے عوامی پرسیپشن پہ کام کیا گیا جس کے لئے بڑی تعداد میں صحافی اور اینکر برادری سے کمک مستعار لی گئی جو دن رات یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ اس روئے زمین پہ عمران احمد خان نیازی جیسا شریف النفس، ایماندار، امانتدار، نیک نمازی پرہیزگار تہجّد گزار بندہ شاید ہی کوئی اور ہو، اور یہ تو بڑی خوش بختی ہے ملکِ پاکستان کی کہ یہ فرشتہ ہمارے معاشی سیاسی سماجی طور پر تباہ حال بگڑے کرپٹ ملک کو سجانے سنوارنے کے لئے ہمیں دستیاب ہے۔

پھر شروع ہوا دعوؤں، وعدوں، بھڑکوں اور بونگیوں کا وہ طوفان جو آج تک تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ خان صاحب نے عوام کو بتایا کہ کس طرح ریاست مدینہ کی تشکیل ممکن ہے، کس طرح ملک کو لوٹ کر نوچ کر کھا جانے والے صرف سیاستدانوں سے چھٹکارا ممکن ہے، کس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے چور ڈاکو پکڑ پکڑ کر ان سے لوٹے ہوئے اربوں روپے راتوں رات قومی خزانے میں جمع ہوں گے، کس طرح ملک پہ واجب ال ادا قرضے راتوں رات بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے منہہ پہ مار کر گروی رکھے پاکستان کو آزاد کرایا جائے گا اور پھر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور راوی صرف چین ہی چین لکھے گا۔

اس دوران اپوزیشن کے ساتھ ڈاکوں اور لوٹ مار میں شریک ملزمان کے لئے توبہ تائب ہونے فرشتہ اور نیک و پارسا بننے کا ایک پیکیج اناؤنس کیا گیا جس کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں شامل وہ الیکٹبلز جو چوریوں اور ڈاکوں میں ملوث ہیں وہ چوریوں اور ڈاکوں سے توبہ کریں اور تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں وہ بھی پاک صاف فرشتے بن جائیں گے۔ اور یوں نیکوکاروں، ایمانداروں، امانتداروں اور فرشتوں پر مشتمل پی ٹی آئی انتخابات 2018 میں میدان میں اتاری گئی۔

انتخابات سے پہلے خان صاحب فرماتے تھے کہ دوست ملکوں سمیت دیگر دنیا سے بھیک مانگتے شرم آتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے پہ میں خودکشی کو ترجیح دوں گا۔ وہ ارشاد فرمایا کرتے تھی کہ جب ڈالر کے ریٹ بڑھتے ہیں تو ملک پہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے، دنیا میں سستا پیٹرول ہے مگر ہمارے چور وزیراعظم اس پر بہت زیادہ ٹیکس لگا کر ملک کے غریب کی جیب پہ ڈاکا ڈالتے ہیں، اگر روپے کی قیمت کم ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا وزیراعظم چور ہے۔

انہوں نے فرمایا تھا کہ ادارے سیاسی مداخلت سے آزاد کروں گا، پولیس کو عوام کا حقیقی خادم بناؤں گا۔ مختصر سی اٹھارہ بیس رکنی کابینہ بناکر ملک کا پیسہ بچاؤں گا۔ وہ فرماتے تھے کہ اگر میری حکومت میں کوئی شہری کسی ایجنسی نے گم کیا تو یا وہ ایجنسی نہیں رہے گی یا میں خود نہیں رہوں گا۔ خان صاحب نے سخت اور بلا امتیاز احتساب کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر میں بھی کرپشن کروں تو میرے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

عوام کے ذہنوں میں بٹھایا گیا کہ بجٹ کا خسارہ بڑھ گیا ہے ملک کو کرپٹ حکمرانوں نے ڈیفالٹ کے دھانے پہ لا کھڑا کیا ہے ہم اسے کم ترین سطح پر لائیں گے کیونکہ ہمارے پاس معاشیات کا آئنسٹائن اسد عمر موجود ہے، جس کا حشر پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح انہیں بے وقعت کرکے کابینہ سے نکالا گیا۔ ہمیں باور کرایا گیا کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے اتنا دب چکا ہے کہ صرف سود چکانا بھی مشکل ہوگیا ہے مگر دس ماہ کی حکومت میں قرضے لینے کا ریکارڈ ہی توڑ دیا گیا، اور ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے نئے قرضے لئے گئے، خان صاحب فرماتے تھے کہ بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ رہی کیونکہ حکمران کرپٹ ہیں کوئی ہم پہ اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، لیکن جب نیا پاکستان بنے گا تو ڈالروں کی برسات ہوگی بیرونی دنیا کے سرمایاکار اربوں ڈالر لے کر ہمیں منتیں کر رہے ہوں گے کہ خدارا ہمارا پیسہ بھی انویسٹ کرلو۔

لیکن کیا ہوا بیرونی سرمایہ کاری پچھلے حکمرانوں کے دور کے مقابلے میں بھی پچاس فیصد سے زائد کم ہوگئی، ملکی گروتھ ریٹ کو تاریخ کی بلند ترین سطح پہ لے جانے کے دعویداروں نے گروتھ ریٹ کم ترین سطح یعنی صرف تین فیصد پہ پہنچا دیا۔ آمدنی بڑھانے اور خرچے کم کرنے کا دعوا 723 ارب روپے یعنی 17.7 فیصد زیادہ بڑھ کر خان صاحب کا منہہ چِڑانے لگا ہے۔ مہنگائی کی شرح صرف دس میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچ گئی اور ایک سؤ پچیس فیصد تک اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسٹاک مارکیٹ 200 فیصد گر کر معاشی آئنسٹائن کی قابلیت اور اہلیت پہ سوالیہ نشان کھڑے کر گئی جبکہ ڈالر جس نے 50 روپے سے 105 روپے تک کا سفر دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے میں طئے کیا وہ صرف دس ماہ میں لمبی چھلانگ لگا کر 150 روپے کی حد بھی کراس کر گیا۔

عمران خان صاحب کی تحریک انصاف حکومت جو محض دعوؤں وعدوں عوام کو سہانے خواب دکھا کر مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو کرپٹ اور لوٹ مار کا ذمیدار ٹھہرا کر، ملکی قرضوں، مہنگائی، افراط زر، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ میں اضافوں سیاسی بحرانوں کا قصوروار بھی خان صاحب کے مخالفین کو ٹھہرایا گیا اور عوام کو یہ یقین دلایا گیا کہ پاکستان کو صرف عمران خان صاحب کی نیک ایماندار خداترس قیادت ہی تباہی اور بربادی کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔

اور اس بیانئے کو عوامی پذیرائی حاصل کرانے کے لئے جس طرح جھوٹ جھوٹ اور صرف جھوٹ کا سہارا لیا گیا آج محض دس ماہ میں اس بے دریغ جھوٹ کا بھانڈہ عوام کے آگے پھوٹ چکا ہے۔ عمران خان صاحب کی حکومت پاکستان کی سیاسی جمہوری تاریخ کی سب سے کم عرصے میں مقبولیت کی اونچائی سے ذلت و رسوائی اور غیر مقبولیت کی کھائی میں گرنے والی واحد حکومت بن چکی ہے۔ خان صاحب نے اپنے دس ماہ میں سوائے اپنے جھوٹے بے بنیاد وعدوں اور دعوؤں کو دوہرانے، اپوزیشن کی قیادت کے خلاف اپنی پوری برگیڈ کے ساتھ مغلظات بکنے، احتساب کو انتقام کا روپ دینے، پوری دنیا میں بھیک کا کشکول اٹھاکر بھیک مانگنے، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد اسی آئی ایم ایف کے پاس پورے ملک گروی رکھنے کے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے غیر منتخب اور مختلف جماعتوں سے آئے مختلف الخیال مختلف نظریات رکھنے والے موسمی پرندوں پر مشتمل 50 سے زائد رکنی بھان متی کا کنبہ اپنے ارگرد تشکیل دے کر حکومت پاکستان کی کابینہ کے خد و خال ہی مضحکہ خیز بنا دیے ہیں جہاں کوئی وزیر ایک دوسرے کے مؤقف سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ خان صاحب نے مدینہ کی ریاست کی بنیاد پر اپنی ریاست کھڑی کرنے کے دعوؤں کی مکمل نفی کی ہے اور اپنے ووٹروں، چاہنے والوں، پاکستان کی عوام کو تبدیلی کے نام پہ دھوکا دیا ہے۔

ان کے یہی بڑے بڑے بول آج ان کے گلے کا پھندا بن چکے ہیں، عوام ان سے جس تبدیلی کی توقع رکھ رہی تھی انہوں نے انتہائی بدترین طرز حکمرانی سے عوام کی توقعات کے سومناتھ کو ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس کر دیا۔ عمران خان صاحب جیسے ہی حاکموں اور لوگوں کے لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ”اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو، جو تم کرتے نہیں“ عمران خان صاحب کو قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کو بار بار پڑھنا چاہیے اور عوام سے کیے اپنے دعوؤں اور وعدوں کو عملی جامعہ پہنانے کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے ورنہ پاکستان کی سیاست کی یہ تبدیلی اپنی تبدیلی پہ ہی نہ منتج ہو جائے اور ہمیشہ کے لئے ملکی سیاست کا بدترین دھبہ نہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).