بی جے پی کی جیت میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے لئے سبق


آج رات کو وہ بہت تھک گیا تھا، 2 بج گئے تھے اور وہ اب بھی اپنے لیپ ٹوپ پہ سوشل میڈیا کارکنوں کے لئے الیکشن کے حوالے سے ہدایات لکھ رہا تھا، اُس نے اپنا موبائل کھولا تو واٹس ایپ پہ سینکڑوں پیغامات آئے ہوئے تھے اور سب لوگوں نے مبارکبادیں اور شبھ کامنائیں بھیجی تھی وہ حیران تھا کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ لوگ مجھے مبارکباد کے پیغامات بھیج رہے ہے۔ نہ آج اُس کا جنم دن تھا اور نہ ہی اُس نے کوئی کامیاب جلسہ جلوس وغیرہ کیا تھا۔

پیغامات پڑھتے پڑھتے جیسے ہی وہ پارٹی کے صوبائی واٹس ایپ گروپ میں پہنچا اُس کے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہوئی اور وہ کانپ کر رہ گیاکہ پارٹی کے مرکزی پارلیمانی بورڈ نے جنرل الیکشن کے لئے بنگلور ساؤتھ کے حلقے سے اُس کے نام پر بھی غور شروع کر دیا تھا۔ اس حلقے سے پچھلے 25 سال سے آننت کمار جیتتاآرہا تھاجو دو بار مرکزی وزیر بھی رہ چکا تھا اور صرف چند مہینے پہلے ہی وہ مرا تھا۔ اس سیٹ پر اُس کی بیوہ سمیت ریاست کے کئی نامور سیاستدان حتٰی کہ کچھ مرکزی رہنما جو اپنے علاقوں سے نہیں جیت سکتے تھے وہ بھی اس محفوظ ترین سیٹ میں دلچسپی لے رہے تھے۔

نوجوان تجسوی سوریا خود حیران تھا کہ میرا نام کیسے زیر غور آیا، اس میں شک نہیں وہ کالج میں بی جے پی کی طلبہ تنظیم کا سرگرم کارکن تھا اور بعد میں پارٹی یوتھ ونگ کا جنرل سیکٹری رہا تھا، وہ اکثر جلسے جلوس منعقد کرتا اور اپنی پارٹی کی صوبائی سوشل میڈیا ٹیم بھی وہی چلاتا تھا، اس وقت ایک این جی او چلا رہا تھا جو تعلیم پر کام کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ وکالت بھی کر رہا تھا اور زیادہ تر پارٹی کارکنوں ہی کے کیس کرتا تھا وہ بھی زیادہ تر بلا معاوضہ، اُس نے اپنے ساتھ ایک عہد کر لیا کہ چاہے اُسے ٹکٹ ملے یا نہ ملے مگر وہ ہمیشہ پارٹی کی خدمت کرے گا کیونکہ اُس کے لئے صرف اپنا نام زیر غور آنا بھی پارٹی کا احسان محسوس ہوا، کچھ ہی دن بعد اُسے دہلی سے کال آئی اور اُسے بتا دیا گیا کہ پارٹی نے اُسے ٹکٹ الاٹ کر دیا ہے، سب سے پہلے وہ آننت کمار کی بیوہ کے پاس گیا اور اُس کی آشیر واد لی، پھر جان لگا کر کیمپین کی۔

23 مئی کو نتیجہ آیا تو 28 سالہ تیجسوی سوریا 6 لاکھ سے زائد ووٹ لے کر اُس روز منتخب ہونے والے اسمبلی اراکین میں سب سے کم عمر تھا۔ بی جے پی کی اسی حکمت عملی سے کہ چاھے جوان ہو یا بوڑھا جس میں اہلیت ہو اُسے میدان میں اتارو سے دوبارہ بھاری اکثریت سے جیت گئی اور ڈیڑھ صدی پرانی کانگریس اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس مضمون میں ہندوستان سمیت پاکستانی سیاسی جماعتوں بالخصوص نام نہاد نظریاتی جماعتوں کے لئے بھی سبق ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لیں اور ذاتی وفاداروں کے بجائے اہل لوگوں کو پارٹیوں میں آگے کریں ورنہ ان کی مثال بھی کانگریس پارٹی سے مختلف نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).