جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ


فوج کو بطور ادارہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے آگے آنا ہو گا۔ عوام مضطرب ہیں۔ ہر طرف جھوٹ دھوکہ اور فراڈ کا بازار گرم ہے۔ پی ٹی ایم کی خاتون رہنما گلالئی اسماعیل نے ننھی فرشتہ کے قتل اور زیادتی پر جو زبان استمال کی وہ قابل مذمت ہے اور قانون کے تحت اس کے خلاف کارروائی ہونا چاہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نجی چینل کے خلاف بھی کارروائی ہونا چائے جس نے ننھی فرشتہ کے قتل اور جنسی زیادتی کو جواز فراہم کیا اس کا والد افغانی ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ کے خلاف بھی یکساں کارروائی ہو جس نے پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار کیا اور پی ٹی ایم والوں کو احتجاج کا موقع فراہم کیا۔

پانچ دن مظلوم باپ بلکتا رہا اور پھر لاش ملی۔ دو دن شور مچتا رہا پھر ہر طرف سے کارروائی اور مذمت بھی ہونے لگی اور انصاف کی فراہمی کے اعلانات اور وعدے بھی۔ پی ٹی ایم والے احتجاج نہ کرتے تو معاملہ دب جاتا۔ اگر صرف گلالئی اسماعیل کے خلاف کارروائی ہوئی تو پھر پختون قوم پرستی کی آگ مزید بھڑکے گی۔

ملک کے معاملات کس طرح چل رہے ہیں فوج کو بطور ادارہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ جس ملک میں وزیراعظم احتساب سے نہیں بچ سکا وہاں چیرمین نیب کس طرح ملک سے بالا ہو سکتا ہے۔ کیا یہ کوئی بنانا ریاست ہے۔ ایک انٹرویو دیا دو دن ترجمان نما صحافی کالم میں انٹرویو یا ملاقات کی تفصیلات شائع کرتا رہا۔ جب شور مچا پھر تردید کر دی ہم نے تو کوئی انٹرویو دیا ہی نہیں۔ کالم نگار کے خلاف جھوٹ اور دروغ گوئی کی سخت کارروائی کی جائے یا پھر چیرمین صاحب سے پوچھا جائے۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا ہو کیا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور تحریک انصاف کے موجودہ صوبائی وزیر صمصام بخاری کا بیان جاری ہوا ہے۔ شہباز شریف نے دس ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ چیرمین نیب کے انٹرویو یا ملاقات میں بھی یہی تاثر ملا تھا۔ ملکی معیشت تیزی کے ساتھ تباہ ہو رہی ہے اور اس طرح کے بیانات اور انٹرویو جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ ملک سے سرمائے کا فرار جاری ہے۔ غربت بے روزگاری اور مہنگائی نے معاشرے پر اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ اگر شہباز شریف نے پیشکش کی تھی تو پھر ڈیل کیوں نہیں ہوئی؟ اگر بازو مروڑ کر ڈیل پر مجبور کیا جا رہا تھا اور شہباز شریف جان بچا کر نکل گئے تو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کیوں پیٹی جا رہی ہے۔

کیا جھوٹے پروپیگنڈے اور سائبر سیلوں کے فریب سے معاشی استحکام حاصل ہوتا ہے؟ فوج کو بطور ادارہ اس معاملہ کو بھی دیکھنا چاہے۔

معیشت کا تو یہ عالم ہے ایک طرف مولویوں کے ذریعے ڈالر کی خریداری کو گناہ قرار دیا جا رہا ہے دوسری طرف سائبر سیلوں کے ذریعے نوجوانوں کی ڈالر جلاتے ہوئے ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلائیں جا رہی ہیں۔ کیا سرمایہ کار گناہ و ثواب کے لئے کاروبار کرتے ہیں۔ کیا سوشل میڈیا کی ویڈیو کے ذریعے ڈالر کی قیمت میں اضافہ روکا جائے گا۔ ایک تماشا لگایا ہوا ہے۔

عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنے کے لئے سانحہ ساہیوال اور فرشتہ کے قتل کی تحقیقات آئی ایس آئی سے کرائی جائیں۔ جو سرکاری افسران سانحہ ساہیوال کی تحقیقات میں سست روی اور رکاوٹیں ڈالنے کے مرتکب ہو رہے ہیں انہیں گرفت میں لایا جائے۔ ملک و قوم سے بڑھ کر کچھ نہیں اب فوج سے بطور ادارہ ہی امید بچی ہے۔ عام انتخابات میں اگر کسی نے دھاندلی کی ہے۔ اگر کسی نے عام انتخابات میں مولوی خادم حسین اور ہمنواوں کو استمال کیا ہے تو اس سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔ ان کا ازالہ کیا جائے۔

مارکیٹ میں افواہیں ہیں چینی گوادر میں بجلی کی پیداوار کے لئے ٹیرف کے تعین کے لئے مسلسل کوشاں ہیں لیکن نیپرا میں کوئی نامعلوم ہاتھ چینیوں کو مضطرب کر رہا ہے ایک سال ہونے کو ہے ٹیرف کا تعین نہیں کیا جا رہا۔ کوئی نامعلوم ہاتھ گوادر میں صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے میں بھی اسی طرح کی چکر بازی کر رہا ہے اور چینیوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تمام منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔

جو جھوٹی خبریں، پروپیگنڈہ اور سیاسی سکورنگ کی جا رہی ہے لندن میں کوئی مافیا بیٹھ کر ڈالر کو کنٹرول کر رہا ہے۔ فوج کو یہ معاملہ بھی دیکھنا چاہے۔ کیا یہ ممکن ہے ریاستی اداروں اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کی موجودگی میں کوئی مافیا ڈالر کی قیمت کنٹرول کر سکے۔ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے لوگ ملکی معیشت کے مالک بن گئے ہیں اور روپیہ کی آزادانہ شرح مبادلہ کے بعد کس طرح کوئی مارکیٹ کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ تو فری کرنسی مارکیٹ بن گئی ہے جو مولویوں کی دوزخ کی دھمکیوں سے درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جھوٹے پروپیگنڈے سے اپنی نا اہلی کو چھپایا جا رہا ہے۔

حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ملکی سرمایہ کار ہیں ہی نہیں اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی فرار ہو گئے ہیں۔ فوج اس ملک کو بچائے اور ملک میں قومی یکجہتی کے لئے اپنا کردار ادا کرے اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔ نواز شریف اور زرداری کی کرپشن کی داستانوں پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ احتساب کے ادارے اور عدالتیں فیصل واڈیا کی اربوں روپیہ کی پراپرٹی کی خبریں آنے کے باوجود آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں۔ حکومتی اداروں کے احتساب پر کون یقین کرے گا۔

جب چیرمین نیب یہ کہے حکومت میں کرپٹ لوگ شامل ہیں گرفتار کیا تو حکومت گر جائے گی وہاں کون سا احتساب اور کیسی کرپشن کے خاتمہ کے لئے کارروائی اور کہاں کی شہباز شریف کی دس ارب ڈالر کی پیشکش۔ ہم سمجھتے ہیں مارشل لا لگانے کا موقع معاشی تباہی نے ختم کر دیا ہے۔ فوج بطور ایک طاقتور ادارہ آگے آئے اور میثاق معیشت کے لئے جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).