دیوتا معصوم ہوتے ہیں


ہم طلسم کدہ کی رعایا ہیں۔ معجزوں پر یقین محکم رکھنے والوں کو معجزے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، سو مل رہے ہیں۔ ہم زندگی کی دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔ جب بھی تھکن آہستہ ہونے پر مجبور کرتی ہے تو غیب سے آواز آتی ہے، بھاگو کہ رکنا تمہیں مار دے گا۔ ہم پھر بھاگنے لگتے ہیں۔ بجلی، گیس کے بل، بچوں کی فیس، کپڑے اور کھانا۔ بھاگو اور بھاگتے رہو۔ رکنا نہیں۔ جو کہا جائے وہ دہراؤ، جو بتایا جائے بس وہی کرو۔ جو ایسا نہ کرے گا اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہو گا۔

نعرہ لگاؤ کہ وہ چور ہے، بولو کہ وہ چور تھا، تمہیں اس نے لوٹا ہے، تمہارے زخموں کا ذمہ دار وہ تھا، کوئی اور نہیں۔ چیخو کہ وہ چور تھا، ڈکیت تھا۔ کیا کہا؟ اسے تم نہیں ہم لائے تھے، شڑاپ شڑاپ، کیسا لگا پیٹھ پر پڑا کوڑا؟ تمہاری تسلی نہ ہوئی تو اب گولی ہے۔ رکنا نہیں بھاگتے رہو۔ بولو کہ وہ چور تھا اور اسے تم لائے تھے۔ دیوتا غلطی نہیں کرتے۔ یہ تم ہو اور تماری جہالت ہے اور اس کی ذمہ داری بھی تم پر آتی ہے۔  اس لئے سزا بھی تم ہی بھگتو گے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی اجازت نہیں پتھر کے بنا دیے جاؤ گے۔

ماضی کو دیکھنا جرم ہے، یہاں شیشہ دکھانا بے ادبی ہوتا ہے۔ وہ دیکھو پتھروں کے مجسموں کو جن کے سر اڑا دیے گئے، عبرت پکڑو۔ دیکھو وہ ایک دیوانے کی لاش جس نے غیبی آوازوں کو سننے سے انکار کر دیا تھا۔ بھاگو، بھاگتے رہو۔ عید آنے والی ہے اور تمہیں اپنے بچوں کی فکر پڑی ہے؟ تم خود غرض ہو، جانتے نہیں کہ مملکت عظیم ہے۔ تمہارا لہو، زندگی، خوشیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ شکوہ گلہ کیسا، سوال اٹھانا غداری ہے۔ بھاگتے رہو۔

انسانوں کی لکھی بے معنی باتیں؟ قانون کب سب کے لئے برابر تھا جو آج شور مچاتے ہو۔ دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھتی انسانی جانوں کی حیثیت کیا تھی، جو آج ہو۔ قانون و انصاف کے دیوتا عام انسان نہیں ہوتے۔ وہ جن کے پاس کروڑوں انسانوں کی قسمت کا اختیار ہو، عام نہیں رہتے۔ اگر ان پر تھکن طاری ہو تو یہ عوام کا فرض بن جاتا ہے کہ ان کی تھکن اتارنے کا ذریعہ بنے۔

جنرل یحیٰی کے شب و روز اگر رنگین تھے تو کیا ہوا؟ یہ اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ یہ وہ نہیں، تم ہو جنہیں جواب دینا ہے۔ تم بھکاری ہو، ہم نہیں۔ یہ ہم ہیں کہ جن کی بدولت تم زندہ ہو، ورنہ دنیا تمہیں مار ڈالے گی، بھاگو۔ کیا ہوا جو تمہاری عورتیں راستوں پر بچے جنتی مر جاتی ہیں؟ کیا ہوا جو تمہارے بچے ویرانوں میں چیر پھاڑ دیے جاتے ہیں؟ کیا ہوا جو تمہیں علاج نہ ملا، سکول نہ ملا، نوکری نہ ملی، یہ سب چور کا قصور تھا، بولو، چیخو کہ ڈاکو سب لوٹ کر لے گئے۔

ہم سے سوال مت کرنا، تم لٹے ہو تو تمہارا ہی جرم تھا کہ لٹے ہو۔ رکو نہیں شڑاپ، بھاگتے رہو۔ وہ دیکھو ایک اور بل آیا ہے، رکنا نہیں، کمائی کرو، ٹیکس دو۔ دو چار کے مرنے سے کیا فرق پڑتا ہے، تم کیڑے مکوڑوں کی طرح بچے پیدا کرتے ہو، ہاں یہ تمہارا قصور ہے۔ دیوتا غلطی نہیں کرتے۔ تم گستاخ ہو۔ یہ تم نے کیا دیکھا اپنی آنکھوں سے، جو بکواس کرتے ہو۔ تم نے جھوٹ دیکھا تھا، تم نے جھوٹ دیکھا ہے۔ سچ وہ ہے جو ہم بتائیں گے۔

ایک آوارہ بد چلن عورت کی بات اور فلم پر یقین کرتے ہو، تمہاری آنکھیں اور کان جھوٹ دیکھتے ہیں۔ وہ سب جھوٹ تھا۔ نہیں نہیں، دیوتا گناہ نہیں کرتے، وہ غلطی نہیں کرتے۔ تم سے غلطی ہوئی، تم غلط سمجھے ہو۔ تصویر، آواز سب جھوٹ تھا۔ تمہاری آنکھیں جھوٹ بولتی ہیں۔ ان کو بند کر لو۔ بھاگو اور بھاگتے رہو۔ تمہیں کام کرنا ہے، تمہیں خراج دینا ہے۔ یہ جو حکمران ہے اسے تم ہی لائے تھے، جس طرح پہلے کے حکمران بھی تم ہی لائے تھے۔  یہ تم سے ہیں، تم ان سے ہو اسی لئے تم سب چور ہو۔ تم سب ڈاکو ہو۔

دنیا کی بلاؤں سے تمہیں ہم بچاتے ہیں، سجدہ خدا کے بعد کسی کو جائز ہوتا، تو ہم تمہیں بتاتے کہ ہمیں سمجدہ کرو۔ بھاگو، تمہیں بچوں کی شادی بھی کرنی ہے۔ بھاگو، تمہیں بڑھاپے کا انتظام کرنا ہے۔ بھاگو کہ تمہیں اپنا گھر بنانا ہے۔ بھاگو تمہیں مکان کا کرایہ دینا ہے، بھاگو، رکنا نہیں، فارغ دماغ، سوچنے لگتا ہے۔ سوچنا جرم ہے، سوچتے رہو گے تو آٹا کون لائے گا۔

بھاگو، رکنا نہیں۔ ابھی تو قاری صاحب کی فیس دینی ہے، ابھی بچوں کی ٹیوشن کا بندوست بھی کرنا ہے۔ ایک بدکار عورت نے دیوتا کو بہکایا تو کیا ہوا، حضرت یوسف بھی تو بہک جاتے اگر خدا کی مدد نہ ہوتی۔ دیوتا معصوم ہوتے ہیں۔ گالی دو اس عورت کو، تھوکو اس عورت پر۔ اس کی مجال دیکھو، وہ بدکار تمہاری عورتوں کو باغی کرتی ہے۔ اس نے جو راستہ چنا کہیں تم نہ چن لینا۔ چھپ کر ویڈیو بنانا گناہ ہے، مذہب میں اس کی اجازت نہیں۔

بدکار نے اس ماہ مقدس میں پاکیزگی کی خلوتوں کا پردہ چاک کیا۔ ثابت ہوا کہ وہ بدکار ہے، گناہ گار ہے۔ دیوتا کا کیا گناہ؟ دیوتا کا کیا قصور؟ ہاں اگر یہ کام ہوتا کسی عامی سے، پھر بات اور تھی۔ سیاہ کار سیاست دان، گناہ گار عوام کی وجہ سے ہیں۔ ان میں سے کوئی اگر ہوتا تو تم دیکھتے کہ علما و مشائخ کیسے تڑپ اٹھتے۔ کیسے مملکت خداداد کی سڑکیں اور راستے، فرزندان توحید کے فلک شگاف نعروں سے بھر جاتے، اگر یہ کوئی سیاہ کار سیاست دان ہوتا تو تم دیکھتے کہ میڈیا جذبہ ایمانی کے تقاضے کس طرح پورے کرتا۔

مگر تم جانتے ہو کہ دیوتا غلطی نہیں کرتے، ان کے خلاف سازش ہوا کرتی ہے۔ ہم سے مت الجھنا، ہمیں تمہاری تقدیروں کے فیصلے کرنے ہیں۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ تمہیں بتائیں کہ اب تمہارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟ ابھی تو نئے غداروں کو سبق بھی سکھانا ہے۔ قانون سب کے لئے برابر تھا ہی کب جو اب تم اس کی خواہش کرتے ہو۔ یہاں ایک لیڈی پولیس کانسٹیبل ویڈیو بنا کر تھوڑا سا تھرک لے یا کوئی پولیس کا نچلا تھانیدار کسی ایکٹر کی نقل کرے اور ویڈیو پبلک اپپ پر اپ لوڈ کر دے تو اسے نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ سچی ہوتی ہیں۔

قانون اندھا ہوتا ہے اور قانون کے دیوتا ثبوت مانگتے ہیں۔ جو ثبوت ویڈیو کی شکل میں تم دیکھتے ہو، وہ ثبوت جھوٹا ہے۔ دیوتا جھوٹ نہیں بولتے، دیوتا گناہ نہیں کرتے۔ چھوڑو اسے تم، یہ بڑی باتیں ہیں اور تم چھوٹے ہو، بھاگو تمہیں کام کرنا ہے، رکنا نہیں، مار دیے جاؤ گے۔ وہ دیکھو تمہارے ہمسائے نے نئی کار بھی لے لی، تمہیں بھی کار لینی ہے، ابھی تو قسطیں بھرنی ہیں۔ ابھی تو راشن لانا ہے۔ نہیں ہے روزگار تو نہ سہی، تم غلط ہو تم ناکام ہو۔ نہیں جینا تو مر جاؤ۔ زندہ رہنا ہے تو بھاگتے رہو۔ سوال مت کرنا، پیچھے مڑ کے دیکھنے کی اجازت نہیں۔ آگے کی فکر ہم پر چھوڑو۔ بھاگتے رہو۔ شڑاپ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).