چین سے تعلقات میں بڑھتی ہوئی عوامی غلط فہمیاں


ہاتھ میں چین کے نائب صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان سے ملاقات کا کارڈ ہے جس کے میزبان چینی سفارتخانہ اور سینیٹر مشاہد حسین سید ہیں اور سوچ رہا ہوں کہ ان سے ملاقات پر کیا بات کروں۔ میں نے چینی وزیر خارجہ سمیت وہاں کے اعلیٰ حکام سے گزشتہ عشرے سے لے کر اب تک کی ملاقاتوں اور چینی حکومت اور دیگر چینی اداروں کی دعوت پر چین کے دوروں کے دوران ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ دونوں مزید تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ مگر ثقافتی دوریاں موجود ہیں۔

یہی سوچتے ہوئے کہ چوتھی صدی عیسویں کے چینی سیاح فاہیان کے سفر نامے پر نظر پڑی اور فیصلہ کیا کہ گفتگو کا آغاز اس عظیم سیاح کے ذکر سے کروں گا۔ باہمی تجارت اور سیاحت قوموں کی قربت کا باعث بنتی ہیں اس قربت میں جہاں مثبت پہلو موجود ہوتے ہیں۔ وہیں پر کچھ نہ کچھ منفی اثرات بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ جن کو بر وقت زائل کر ڈالنا چاہیے ورنہ مثبت اثرات کو بھی دیمک زدہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ برصغیر کے چینیوں سے تعلقات کی ایک طویل تاریخ موجود ہے بلکہ تاریخ جب اس خطے کی تحریر کی جاتی ہے تو اس کے اولین ماخذات میں سے 2 چینی سیاحوں فاہیان اور ہواین تسانگ کے سفر نامے بھی قرار دیے جاتے ہیں۔

چوتھی صدی عیسویں میں فاہیان جبکہ اس کے 2 سو سال بعد ہو این تسانگ نے اس خطے کا سفر کیا۔ فاہیان کا سفر دراصل اس کے مذہبی جذبات کی بناء پر شروع ہوا تھا۔ گوتم بدھ کی دھرتی ہندوستان تھی اور چین میں اس کا خاطر خواہ اثر پہنچ چکا تھا۔ مگر چینیوں کو علم ہوا کہ گوتم بدھ سے وابستہ نادر اشیاء اور دستاویزات ضائع ہو رہی ہیں لہٰذا فاہیان نے ہندوستان کے سفر کے لئے کمر باندھ لی۔ اور اپنی مقدس اشیاء کو تحفظ کرنے کی غرض سے کہ ان کو چین لے آئے وہ چل پڑا یہ بات یہاں کے باسیوں کے لئے بڑی حیران کن تھی کہ کوئی مذہبی کی کھوج کے لئے اتنا سفر کر سکتا ہے۔

اس بات کا اظہار اس سے پرجیت ون میں قائم بدھ وہار کے سنیاسیوں نے کیا تھا کہ جہاں پر کبھی گوتم بدھ تعلیم دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنا سفر ادیان یعنی چمن کے آس پاس سے شروع کیا۔ گاندھار، ٹیکسلا اور پشاور سے ہوتے ہوئے وہ دریائے سندھ کو پار کرکے جمنا کے کنار متھرا میں پہنچا۔ سنکاشیہ، قنوج اور شراوستی گیا۔ اس نے گوتم بدھ کی جائے پیدائش کپل وستو دیکھی۔ گنگا کو پار کر کے پاٹلی پتر آیا اور وہاں پر موجود خیراتی ہسپتالوں کو دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔

بنارس گیا جہاں بدھ نے اپنے مذہبی خیالات کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔ اس طرح وہ 2 سال ہندوستان میں مقیم رہا اور اپنی مذہبی کتب اور دیگر اشیاء کی نقول تیار کرتا رہا۔ پھر لنکا چلا گیا اور وہاں بھی 2 سال تک جوش و خروش سے اپنے یہی معاملات کو نبٹاتا رہا۔ وہاں سے جاوا چلا گیا اور جاوا کے ایک تجارتی جہاز کے ذریعے چین پہنچ گیا۔ اس کی کل دنیا اس کے اکٹھے کیے ہوئے مذہبی نوادرات تھے بس۔ اس نے نوادرات ہندوستان سے اکٹھے کرتے ہوئے سفر نامے میں اس وقت کے ہندوستان کے خد و خال بیان کر دیے۔

معاملہ دو طرفہ فائدے کا ہو گیا۔ اس وقت سے لے کر قیام پاکستان کے کچھ ابتدائی عرصے کو چھوڑ کر چین کے حوالے سے اس خطے میں جو اب پاکستان کہلاتا ہے ایک مثبت تصور قائم رہا۔ بھارت کی طاقت اور بڑا ہونے کے زعم نے پاکستان کو چین کے مزید قریب کر دیا۔ چین بھارت جنگ نے واضح کر دیا کہ جس طرح پاکستان کو چین کی حمایت درکار ہے اسی طرح چین بھی پاکستان سے قریبی تعلقات کی ضرورت رکھتا ہے لیکن اسی دوران نہ تو بڑے پیمانے پر سیاحت ہوئی اور نہ ہی دونوں قوموں کے درمیان مل ملاپ کی کوئی بڑی صورت دکھائی دی۔

مگر دونوں ریاستوں کے درمیان قریبی با اعتماد تعلقات بڑھتے چلے گئے چین گزشتہ چند دہائیوں سے بہت تیزی سے اشیائے ضرورت بنانے میں آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے لہٰذا پاکستان میں اس کی بنی ہوئی اشیاء کی بہتات ہو گئی۔ اور یہ باہمی تجارتی تعلقات بڑھنے کی واضح علامت تھی۔ گزشتہ حکومت نے پاکستان کے معاشی مسائل کا حل سابقہ حکومتوں کو برا بھلا کہنے کی بجائے معاشی حکمت عملی میں تلاش کیا جس کے لئے اسحاق ڈار بجا طور پر تحسین کے حقدار ہیں۔

جبکہ توانائی کے بحران سے نبٹنے کے لئے شاہد خاقان عباسی متحرک رہے اور کامیاب بھی ہوئے۔ اسی دوران ایک بڑا معاہدہ سی پیک کی صورت میں سامنے آیا اور دونوں ممالک کے وہ تعلقات جو صرف چند شعبوں تک محدود تھے ایک بحر بے کراں کا روپ دھارنے لگے۔ سمندر میں گندا، صاف ہر طرح کا پانی شامل ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح قوموں میں بھی مجرمانہ ذہنیت کے لوگ موجود ہوتے ہیں جو نئے مواقعوں کی صورت میں جرائم کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کر ڈالتے ہیں۔

چینیوں کی پاکستانی خواتین سے شادیوں اور اس سے متعلق جرائم دراصل ایسی ہی کہانی ہے۔ گزشتہ سال کے آغاز میں ان سطور کے راقم نے چھوٹی مگر مشکوک باتوں کے عنوان سے کالم قلمبند کیا تھا۔ جس میں انار کلی بازار میں شناختی دستاویزات طلب کرنے پر چینی باشندوں کی پولیس اہلکاروں سے بد مزگی اور دیگر اسی طرح کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ ”اس نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات غلط فہمی اور رفتہ رفتہ معاملات کو بدمزگی کے حوالے کر ڈالتے ہیں“ اور اگر ہم چینیوں کی شادیوں کے معاملات کی میڈیا کوریج کو سامنے رکھیں تو واضح طور پر محسوس کریں گے کہ معاملات غلط فہمی کی طرف عوامی سطح پر بہت تیزی سے رواں دواں ہیں اور اگر ان کو روکا نہ گیا تو ایسی صورت میں بد مزگی بھی بس آئی کھڑی ہے۔

جب اقدامات نئے کیے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں چیلنجز بھی نئے سامنے آتے ہیں۔ اور ان کا بروقت تدارک ہی مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ ابھی تو میڈیا میں جعلی شادیوں کا زور ہے۔ مگر با خبر حلقوں میں یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ جو چینی سرکاری سطح پر آ رہے ہیں ان کی دستاویزات تو مکمل ہوتی ہیں لیکن جو چینی نجی طور پر پاکستان آ رہے ہیں ان کی دستاویزات مشکوک اور بعض اوقات نا مکمل تک ہوتی ہے۔ جو وجوہات آنے کی بیان کی گئی ہوتی ہیں اس کے علاوہ سرگرمیوں میں حصہ لیا جا رہا ہوتا ہے۔

جیسے مذہبی تبلیغ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اسی طرح سکیورٹی ایجنسیوں کے غیر قانونی قیام کی بھی صدائے باز گشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ زمین اور حصص خریدنے کے حوالے سے باقاعدہ قوانین موجود ہیں مگر فرنٹ مینوں کے نام کی دھائیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ ابھی ابتداء ہے دونوں ممالک اگر مناسب منصوبہ بندی کریں تو ایسی صورت میں ان واقعات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ ویزا پالیسی قیام اور اس سے منسلک معاملات کو ازسر نو دیکھنے اور اس کے لئے ضوابط کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔

سی پیک اور بہتر تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے اس ضرورت کو 2 ثقافتوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں کی بناء پر بدگمانیوں میں تبدیل ہونے سے روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ بدگمانیاں مستقل درد سر بن جاتی ہیں۔ ہمارے درمیان فاہیان سے لے کر آج تک اچھی یادیں اچھی تاریخ موجود ہے اور ان کو بچانا ترقی دینا ہمارا فرض ہے۔ اسی طرح ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ایران اور امریکہ کی بڑھتی کشیدگی میں نہایت ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے۔

بالکل ویسا ہی رویہ جیسے جب شام کی جنگ چھڑی ہوئی تھی اور پاکستان کے نو منتخب مگر تجربہ کار وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ طاقت کے زور پر قانونی حکومتوں کو گرانے کا طریقہ کار درست نہیں۔ ان کے متعلق یہ مضبوط خیال تھا کہ وہ مسلمان ممالک کے ایک خاص فریق سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود اس فریق کو بھی آگ سے بچانے کے لئے یہ صائب مشورہ دیدیا کہ طاقت کے زور پر حکومتوں کی تبدیلی نری تباہی ہے۔

ویسے یہ تباہی معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں طاقت کے ایک اور مظاہرے کے ذریعے حکومت گرانے کی صورت میں پاکستان میں اس وقت خود بھی موجود ہے۔ بہرحال یمن کے معاملے میں بھی پاکستان اسی سبب سے لا تعلق ہو گیا اور عسکری طاقت کے استعمال سے انکار کر دیا۔ ان واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کی ایران اور ہاں عرب ملکوں کے نزدیک زبردستی فوجی موجودگی خطے میں کشیدگی کو برق رفتاری سے بڑھاوا دے رہی ہے اور وطن عزیز اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ اور ہمارا تعلق ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے نہ ہماری انگلیاں جلیں اور نہ ہی ہم کسی کی انگلیاں جلنے کی وجہ بنیں۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ کی فوجی موجودگی کا سبب کیا صرف ایران کو دھمکانا ہے یا وہ خطے میں اس کے ساتھ ساتھ کوئی اور پیغام بھی دینا چاہتا ہے۔ عرب بہار کے بعد عرب مین ایک طرح کی بے چینی پیدا ہوئی اور اس صورت مین امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہو گیا کہ امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومتوں کو بھی یہ واضح پیغام دیدیا جائے کہ آپ کی سلامتی بھی صرف اس میں مضمر ہے کہ آپ ہمارے نقش قدم پر چلیں۔

ورنہ فوجی طاقت کے استعمال کے لئے نہ اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی باہمی معاہدہ اس کو روک سکتا ہے۔ ایران سے 2015 ؁ء کے جوہری معاہدے سے پیچھے ہٹنے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے موجودہ پالیسی سازوں کی نظر میں معاہدوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں اور یہ صرف ایران کے ساتھ ہی نہیں کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).