وزیرستان میں تاریکی کا سفر


راولپنڈی میں کسی ایک تقریب میں اپنے پیارے دوست بریگیڈئیر عبدالرشید سے ملاقات ہوئی۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کو کچھ ہی دن ہوئے تھے اور پی ٹی ایم کا غلغلہ تھا۔ عبدالرشید جسے ہمارا کورس اس کے اصلی نام سے زیادہ پی ایم اے میں دیے گئے نام سے جانتا ہے، یاروں کا یار، اکھڑ فوجی، سچا پاکستانی اوربنوں کا خالص پٹھان ہے۔ پی ٹی ایم کی ابھرتی تحریک پر مجھے وہ متفکر نظر آیا۔ تقریب سے اٹھتے ہوئے میں نے اس سے درخواست کی کہ اگر وہ آج کی گفتگو کو چند نکات میں ڈھال سکے تو میں اس موضوع پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ بریگیڈئیر عبدالرشید نے اگلے ہی روز مجھے ترتیب وار نکات پر مبنی اپنا تجزیہ بھیج دیا۔ میں اس موضوع پر لکھنے کو سوچتا رہا تا ہم بوجہ خود کوآمادہ نہ کر پایا۔

اپنی فوجی ملازمت کے ساڑھے تین سال میں نے فاٹا کی تین ایجنسیوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں گزارے۔ دل وجان پر گزری ایک داستان ہے جو ایک عرصہ سے قلم بند کرنے کی جستجو میں ہوں۔ نوک پلک ٹھیک کرنے کو طویل اوربے ترتیب مسودے کو اٹھاتا ہوں تو کئی نئے چہرے، مقامات اور واقعات یادوں کے جھروکوں سے آن دھمکتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً دو سال کے عرصے میں پچاس ساٹھ کے قریب کالم لکھ چکا ہوں، لیفٹیننٹ طیب پر لکھے گئے مضمون کے علاوہ ایک حرف بھی قبائلی علاقوں پر نہیں لکھا۔

مختصر کالم میں درد کی طویل داستان کو سمویا بھی کیسے جائے کہ ان طویل سالوں کے کسی ایک لمحے کو کسی دوسری ساعت سے جدا کیا نہیں جا سکتا۔ جنرل نیاز خٹک کے حکم پر بریگیڈیر نوید زمان کے ساتھ مل کر کئی ایک سانحات کی انکوائریاں کیں۔ جنرل کو ان کی کتاب لکھنے کے لئے ڈھیروں صفحات پر مبنی مواد کی چھان پھٹک میں معاونت کا موقع بھی مجھے ملا۔ وحشت، فریب، دکھ اور بے بسی کے انسانی رویے بہت قریب سے دیکھنے کو ملے، اس باب میں مگر کچھ لکھ نہیں پایا۔ اسلام آباد میں فرشتہ کے قتل کے بعداچانک چند یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔

سال 2002 ء میں کوہاٹ میں اپنی یونٹ کی کمان سنبھالی تو افغانستان پر امریکی حملے کے بعدہر رنگ و نسل کے جنگجو ہمارے قبائلی علاقوں میں امڈتے چلے آ رہے تھے۔ جنوبی وزیرستان میں زیادہ تر غیر ملکیوں کا تعلق ازبکستان، تاجکستان اور چیچنیا سے تھا جو اپنی خونخواری کے لئے جانے جاتے تھے۔ بظاہر باریش، پرہیز گار نظر آتے اور قرآن کی طویل رقت آمیز تلاوت کرتے۔ چنانچہ حراست میں لیے جانے کے باوجود ہمارے جوان ان سے اپنائیت اور احترام کا سلوک کرتے۔

یونٹ کی کمان سنبھالتے ہی میں کرم، اورک زئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں سے واقفیت کے حصول کے لئے روانہ ہوا جو کہ میرا ان علاقوں کا پہلا سفر تھا۔ چار پانچ دن کے سفر کے بعد تین ایجنسیوں سے ہوتے ہوئے ہم رزمک، وانہ شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے کانی گرم کے مقام پر نماز ظہر کے لئے رکے۔ (کانی گرم عمران خان کی والدہ کاآبائی گاؤں ہے ) مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلا تو درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والا میرا گن مین بندوق کو ایک آن سے کندھے پر چڑھائے مور کی سی چال چل رہا تھا، جبکہ مقامیوں کا ہجوم میرا منتظر تھا۔

نماز کی ادائیگی کے دوان ہی مسجد کے ساتھ نسبتاً ایک کھلے مقام پرگول دائرے میں کرسیاں بچھا دی گئیں تھیں اور گاؤں کے ملک اور معززین میرے منتظر تھے۔ نہایت خوشگوار ماحول میں ہم نے مقامی بسکٹوں کے ساتھ چائے پی۔ بے حد اپنائیت کے ساتھ ہمارے قافلے کو وہاں سے رخصت کیا گیا۔ آنے والے چند مہینوں میں فوج اور غیر ملکی جنگجوؤں کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی جس میں دونوں اطراف نے جانی نقصان اٹھایا، مگر معاملات ایک دائرے کے اندر رہے، تاآنکہ غیر ملکیوں نے مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر ایف سی کے دو قافلوں پر خوفناک حملے کیے۔

دن دہاڑے، وانا کے اعظم بازار میں فوج کے ایک جوان کے سینے میں گولی اتاردی گئی۔ تناؤ کے اس ماحول میں ایک چیک پوسٹ سے ایک مسافر وین کو مشکوک سمجھ کر نشانہ بنا ڈالا گیا۔ بدلے میں فروری 2003 ء میں میری یونٹ کے قافلے پر سرو کئی کے مقام پر گھات لگائی گئی۔ نوجوان لیفٹیننٹ طیب نے 22 جوانوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اورپاکستان کے قبائلی علاقے آنے والے کئی سالوں کے لئے تاریکی میں ڈوب گئے۔

کچھ عرصہ بعد میں ایک بار پھر لدھا اورکانی گرم کے درمیان شاہراہ سے گزرا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ بھاری حفاظتی بندوبست کے بغیراس شاہراہ پر سفر اب نا ممکن تھا۔ چنانچہ وانا سے بنوں آمدورفت کے لئے ہم وانا، جنڈولہ، ٹانک شاہراہ کو مخصوص دنوں میں استعمال کرتے۔ جنڈولہ، مکین شاہراہ پر واقع ’کوٹ کئی‘ نامی بستی مکمل طور پر غیر ملکی دہشت گردوں کے قبضے میں تھی۔ اس بستی میں دو جیپوں پر سوارہمارے چند نوجوان افسر اور جوان غلطی سے داخل ہو گئے اور گھیرے جانے کے بعد ایک مکان کی چھت پر پناہ لے کر تین روز تک بھوکے پیاسے، جاگتے اور لڑتے رہے۔

چند روز بعد صورت حال نارمل ہوئی تو مقامیوں کا ایک لشکر جسے ’چل وشتی‘ کہا جاتا ہے فوج کی درخواست پر غیر ملکیوں سے علاقہ خالی کروانے کے لئے امن مذاکرات کی غرض سے علاقے میں گیا اورکسی نامعلوم طرف سے آئے ہوئے گولے کی زد میں آ کر شدید جانی نقصان اٹھا کر، ناکام واپس لوٹ آیا۔ غیر ملکی اور مقامی جنگجوؤں نے الزام پاک فوج کے توپ خانے پردھرا۔ فوج کی جانب سے انکوائری کا حکم آیا۔ میں فیکٹ فائنڈنگ کے لئے بریگیڈیر نوید کے ساتھ جنڈولہ کے قلعے میں تھا کہ ایک دفتر میں جنگجوؤں کے درمیان سنی گئی گفتگو کا تحریری ریکارڈ دیکھنے کو ملا۔

اتفاقاً دو مقامی افراد کی گفتگو بھی اس ٹرانسکرپٹ میں شامل تھی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ، ”ہم کدھر جائیں۔ ادُھر جاتے ہیں تو طالبان مارتے ہیں، اِدھر آتے ہیں تو فوج کا گولہ سر پر پھٹتا ہے“۔ تار یکی کے اس دور میں قبائل میں رائج صدیوں پرانی روایات تہ تیغ ہو چکی تھیں۔ قبائلی ’ملک‘ کا ادارہ مذہب کے نام پر قائم مسلح تنظیموں کے سامنے بے اثر ہو چکاتھا۔ کچھ علاقوں پر اسلحہ بردار دہشت گردوں کا دور دورہ تھا جبکہ شاہراہوں اور قلعوں پر فوج علاقہ بند تھی۔ مقامی قبائلی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا تھا۔

قتل وغارت کے اس دور میں ایک دن ہمارا قافلہ جنڈولہ سے نکل کر ٹانک کے قرب میں پہنچا تو سڑک کے کنارے بستی میں مفلوک الحال برہنہ پا قبائلی بچے درخت کی خشک ٹہنیوں کو بندوق بنا کر منہ سے ٹھاہ ٹھاہ کی آواز یں نکالتے، ایک دوسرے پر ’فائرنگ‘ اور کھیل کود میں مگن تھے۔ یہ اس ہولناک جنگ کے بچے تھے کہ جن کے کان صرف بارود کی گھن گرج اور گولیوں کی تڑتڑ سے آشنا تھے۔ ایک ایسی نسل جو خاک اور خون کے کھیل میں پل کرجوان ہورہی تھی۔

میرا قافلہ قریب آیا تو چند بچوں نے سڑک کے کنارے لیٹ کر سوکھی ٹہنیوں سے ہمارے قافلے پر ’گولیاں‘ برسانا شروع کر دیں۔ آج تقریباً دو عشرے ہونے کو ہیں تو میں سوچتا ہوں ’داوڑوں‘ کی اس بستی میں محسن داوڑ نامی شخص بھی ان بچوں میں شامل، سوکھی ٹہنیوں سے ٹھاہ ٹھاہ، فوجی قافلوں پر گولیاں برساتا ہوگا۔ تاریکی کے اس دور میں پروان چڑھنے والا، زہر میں گندھا ایک ایسا شخص کہ جس کے لبوں پر امن کے گیت، مگر رگوں میں اندھیرا دوڑ رہا ہے۔

میں بوجہ اس تحریک اور اس میں شامل افراد اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ملکی و غیر ملکی عناصر سے پہلو تہی برتتا رہا ہوں۔ اسلام آباد میں فرشتہ نامی بچی کے بہیمانہ قتل کے بعد پی ٹی ایم کے دروغ اور منافقت پر مبنی رد عمل اور گلالئی نامی عورت کے نتھنوں سے بہتے زہر کو دیکھ کر مگر میرا وجدان کہتا ہے کہ پشتونوں کے حقوق کے نام پر شروع ہونے والی یہ تحریک اپنی موت آپ مرنے کو ہے۔ محسن داوڑ کی نسل مذہب کے نام پر برپا تاریکی کی پیداوار ہے۔ ایک مختلف نعرے کے ساتھ قبائلی علاقوں میں تاریکی کا سفر اب بھی جاری ہے۔ جھوٹ سے مگر انتشار تو برپا کیا جا سکتا ہے، کسی اعلی وارفع مقصد کا حصول ممکن نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).