ایاز امیر، جرات رندانہ کو بدنام نہ کر!


معروف قلمکار ایازمیر نے اپنا نیا کالم ”مہنگائی اپنی جگہ، باقی کاموں سے کس نے روکا ہے؟ “ کے عنوان سے لکھا ہے۔ ایاز میر جیسے دانشور بھی جب اپنی تحریروں کے ذریعے قوم کو گمراہ کرنے کا ہی کام کریں تو دانش بدنام نہیں ہوتی کہ بصیرت تو اکثر برائے فروخت ہی رہی ہے، بلکہ رندی کا نام بدنام ہوتا ہے، رند تو کم از کم سچ بولنے کا استعارہ سمجھے جاتے تھے۔ ایاز میر کے نقطہ نظر نے اس اصطلاح کی حرمت بھی داغدار کر دی ہے۔ ایاز میریورپ اور امریکہ کی تاریخ یقینا ہم سے زیادہ جانتے ہیں تو کیا وہاں سب کچھ کسی چمتکار کی طرح فورا ہو گیا تھا، جس کی توقع آپ یہاں رکھے ہوئے ہیں۔

بھٹو صاحب بھی تو ایوب خان جیسے آمر کی ٹیم سے ہی نکلے تھے، جیسے نواز شریف جنرل ضیا ء کے دور میں سیاست اور ایوان اقتدار میں لائے گئے۔ لیکن جب ان حضرات کو عوامی حمایت کا شعور حاصل ہوا تو یہ اپنے ان ہی ”محسنوں“ کے مقابلے میں عوام کے ہجوم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جس کی سزا بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے اور نواز شریف کو جیل کی کال کوٹھری کی شکل میں بھگتنا پڑی۔ سچے دل سے بتائیے کیا نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان کی اقتصادی حالت آج سے کافی بہتر نہ تھی؟

پاکستان ترقی کرتا نظر آ رہا تھا۔ یہ ہے کہ سماجی شعبے میں بہتری کی وہ رفتار نہ بن سکی جس کی توقع ایک اچھے جمہوری نظام میں کی جاتی ہے۔ لیکن اگر یہاں جمہوری نظام کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جاتا اور پہلے ہی دن سے اس کے خلاف دیدہ و نادیدہ سازشیں نہ کی جاتیں تو عوام اپنے ووٹ کے ذریعے ضرور ان حکمرانوں کو سماجی شعبے میں بھی بہتری کے لئے مجبور کر دیتے۔

لیکن یہ موقع پاکستان میں عوام کو کبھی نہیں دیا جاتا۔ الیکشنز ”پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر“ دونوں جگہ سے ناجائز طور پر کنٹرول کیے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کو بنجر میدانوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جہاں کچھ بھی اگ نہیں سکتا۔ حالیہ مسلط کردہ حکومت اس کی بہترین مثال ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کا رول ہی ایک ”ناکام جمہوری ماڈل“ کے لئے منتخب کیا گیا تھا تاکہ اس ناکام جمہوری ماڈل کی نمائش کر کے پاکستان میں کوئی دوسرا سازگار حکومتی نظام رائج کیا جا سکے جو ان معذور اور محدود جمہوری ادوار کے ایسے اقدامات مثلا اٹھارویں ترمیم، یا صدارتی اختیارات کو محدود کرنے جیسے اقدامات کا سدِ باب کر سکے اور ہمارے جلیل القدر ریٹائرڈ حضرات کو مجبوری کے عالم میں ”روز گار“ کے لئے کبھی سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی اور کبھی دوبئی میں امریکی سی آئی اے کے تھنک ٹینکس کی کمتر درجے کی نوکریاں نہ کرنی پڑیں، بلکہ یہ بیش قیمت حضرات اپنے وطن میں ہی ”اسلامی صدارتی نظام“ کے تحت شایان شان عہدوں پر مامور کیے جا سکیں۔

اس نئے نظام میں اسلامی کے لفظ سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ان ہی دیرینہ انصار و مددگاروں کی طرف اشارہ ہے جن سے کبھی وائٹ ہاؤس کے مکین بھی ملنا سعادت سمجھتے تھے۔ مولانا سراج الحق کی خاموش، لاتعلقی اسی سنہرے دور کے انتظار کا شرعی طریقہ ہے۔ جناب پاکستان میں آمر حضرات نے پورے بلکہ ضرورت سے بھی زیادہ اختیار کے ساتھ دس دس سال سے زیادہ مدت تک کمال یکسوئی کے ساتھ حکومتیں کی ہیں۔ وہ کیوں یہ معمولی عوامی مسائل صحت تعلیم انصاف وغیرہ حل نہ کر سکے؟ بلکہ ان ادوار میں ان مسائل میں اضافہ ہی ہوا۔

صرف یہ کیا گیا کہ بے دھڑک ہو کر ذاتی فوائد کے لئے پاکستان کے قومی مفادات کا سودا کیا گیا، جس کے نتائج پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔

یہاں ملک پر قبضہ کرنے کے لئے کسی سے پوچھنے یا عوام کی رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی، لیکن کامل اختیار کے باوجود نئے ڈیم بنانے کے لئے عوام کی رائے اور رضامندی ڈھونڈی جاتی۔ کسی کو یاد ہو یا نہ یاد ہو کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف پہلی آواز اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر جنرل فضل حق کی طرف سے اٹھائی گئی تھی اور دوسرے اینڈ پر جنرل ضیاء اس مخالفت کی ”حمایت“ حاصل کرنے کے لئے جی ایم سید کے پاس گلدستے لے کر خود تشرہف لے گئے تھے۔ ایاز میر کی یہ تحریر مجبور اور مقہور جمہوریت کے شکست خوردہ سول کرداروں تک ہی محدود رہتی ہے۔ یہ ضمیر رندانہ کے بنیادی پروٹوکول کے خلاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).