کیا پاکستان میں انصاف کا راستہ پتلون سے ہوکر گزرتا ہے؟


نیب پاکستان کی معاصر تاریخ کا سب سے طاقت ور ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جس کے اختیارات شاید عدلیہ سے بھی زیادہ محسوس ہوتے ہیں، یقینا اُس کا سربراہ [جن کے بارے میں تمام جماعتوں کا متفقہ موقف تھا کہ یہ اچھی شہر ت کے حامل ہیں] بھی یقینا طاقت کا بڑا مرکز تسلیم کیا جانا چاہیے اور واقعتاً کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک دو ویڈیوز گشت کرتے دکھائی دیے۔ ایک ویڈیو ایک نجی چینل کی طرف سے تھا جس میں ایک خاتون معزز چیئرمین نیب سے ایک ایسی گفتگو کرتی دکھائی دیتی ہے جو ذاتی اور نجی حیثیت میں تو قانونِ کی گرفت میں نہیں آتی البتہ ایک ایسے ادارے کے سربراہ سے منسوب یہ آڈیو پاکستانی قوم کے نزدیک حیران کن ضرور تھی، جو انصاف اور شفافیت کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔

قوم ابھی حیرت میں مبتلا تھی کہ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر آگیا جس میں ایک دفتر کا منظر دکھائی دیتا ہے اور چیئرمین نیب [ممکن ہے ان کا ہم شکل ہو یا ایڈٹنگ کا کمال ہو] کو خاتون سے محوِ گفتگو اور بغل گیر ہوتے دکھایا جاتا ہے۔ اس ویڈیو کی ریکارڈنگ کی ٹائمنگ کیا ہے؟ اس بارے یقینا معزز چیئرمین، ان کے دفتر کا عملہ یا وہ خاتون ہی جانتی ہوگی۔ اس ویڈیو سے قبل نجی چینل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ویڈیوز درست نہ تھے اور وہ معافی مانگ کر ایک طرف ہوجاتا ہے۔

ایسے ہی سوشل میڈیا پر ایک ہاتھ سے لکھا ہوا خط بھی گشت کرتا ہے جسے نیب سے منسوب بتایا جاتا ہے جس میں یہ مذکورہ ویڈیوز کی حقیقت سے انکار کیا جاتا ہے اور انہیں انجینئرڈ کہا جاتا ہے۔ ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے کہ ملک کے سب سے طاقت ور ادارے کے سربراہ پر ایسے سنگین الزامات کوئی معمولی بات نہیں۔ اسی دوران ایک پریس کانفرنس میں مشیرِ اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان میڈیا پر ایک پوزیشن لیتی ہیں کہ یہ سب چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے لیے منصوبہ بنایا گیا تھا جو کہ سراسر غلط اور جعلی ہے۔ اب عوام کے ذہن میں جو چند ایک سوالات آرہے ہیں وہ یوں ہیں :

سوال 1 : اگر یہ ویڈیوزفیک ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان ویڈیوز کے فورینزک ٹیسٹس کروائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

سوال 2 : ویڈیوز کے جعلی ہونے کے مختلف دعویٰ جات سامنے آئے ہیں۔ ایک نیب کی طرف سے یعنی ادارہ اپنی تحقیقاتی بصیرت پر یہ دعویٰ کرچکا ہے کہ یہ ویڈیوز جعلی ہیں۔ گویا ادارہ ایک پوزیشن لے رہا ہے۔

سوال 3۔ وزیرِ صاحبان جو چیئرمین نیب کے حق میں پوزیشن لے رہے ہیں کیا انہوں نے تحقیقات کرلیں؟ کیا وہ حتمی طور پر ان ویڈیوز کے جعلی ہونے کے بارے میں جانتے ہیں؟ اگر کل کلاں سپریم کورٹ کوئی جے آئی ٹی بناتی ہے اور ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ویڈیوز اصل تھے تو ادارے اور وزرا کی باتیں جھوٹی ثابت ہوں گی تو کیا ادارے کی کریڈیبیلیٹی برقرار رہے گی یا وزرا قابلِ اعتبار رہیں گے؟

سوال 4۔ اگر ملزمہ پر کیس چل رہا تھا تو [ویڈیوز اصل ہونے کی صورت میں ] وہ کیس حیثیت میں چیئرمین نیب سے ان کے دفتر میں اس کھلے ڈلے انداز میں مل رہی تھی؟ کیا انصاف مہیا کرنے والے ادارے کو اتنا سادہ ہونا چاہیے کہ کوئی اسے ایک خاتون کے ذریعے سے پھنسا سکے؟

اب اگلی بات : سینئر صحافی نصر اللہ ملک کی طرف سے خاتون طیبہ کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں وہ چیئرمین نیب پر الزامات لگاتی ہے کہ انہوں نے اسے ہراس کیا ہے وہ اسے بلاتے تھے ملتے تھے، اور وہ قانون کی طالبہ ہے انہوں نے اسے نوٹس دینے کی آفر کی، وہ مزید الزامات لگاتی ہے کہ اس کے پاس اور بھی مواد ہے جسے وہ وقت آنے پر پیش کرے گی۔ یہ الزامات بہت گھمبیر ہیں۔ خاتون کی بات سے یہ اگریہ قیاس کربھی لیا جائے کہ اس نے چالاکی سے چیئرمین کو اپنا اسیر بنایا اور اس کی ریکارڈنگز کرتی رہی تو درجِ ذیل سوالات سامنے آتے ہیں :

سوال 1 : کیا ایک ایسے ادارے کا سربراہ آسانی سے خاتون کے چنگل میں پھنس سکتا ہے جو موجودہ صورتِ حال میں انصاف اور شفافیت کے حوالے سے ایک حلقے کی جانب سے سند کی حیثیت سمجھا جاتا ہے؟ اگر وہ پھنس سکتا ہے تو اب تک کے فیصلوں کی حساسیت کو مدِ نظر رکھا جائے تو کیا وہ قابلِ اعتبار ٹھہرتے ہیں؟

سوال 2 : کیا ایک سرکاری دفتر میں کی جانے والی ذاتی سرگرمی جس کی جڑیں قطعی ذاتی نوعیت کی نہیں ہیں ذاتی سمجھی جائیں گی؟ اگر ذاتی تعلقات ہیں تو کیا چیئرمین اس تعلق کو تسلیم کریں گے؟ اگر کریں گے تو ایک مجرمہ سے تعلق کی وضاحت دینا ہوگی اور تعلق نہیں ہے تو جو کچھ ویڈیو سے اخذ ہورہا ہے اس کی وضاحت دینا ہوگی۔

سوال 3۔ ایسے گھمبیر معاملے پر حکومت اور عدالتِ عظمیٰ کی خاموشی سے ملک کی ایک بڑی جمیعت بے چین ہے کیونکہ اس واقعے سے اس بیانیے کو تقویت مل رہی ہے کہ ذاتی تعلق کسی بھی نوعیت کا ہو وہ قانون کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ ایک انتہائی پریشان کن صورتِ حال ہے۔ ہمارے سامنے تو ریاستِ مدینہ کا ماڈل رکھا گیا تھا۔ کیا ریاستِ مدینہ میں اس سب کی گنجائش موجود ہے؟

فرض کریں مذکورہ بالا تمام باتیں شکوک و شبہات ہیں اورخاتون کی طرف سے جھوٹی ہیں اور اس سے چیئرمین نیب کی ساکھ کو مجروح کیا گیا ہے۔ تو مجرمہ اور اس کا شوہر جو کہ پہلے سے مقدمات میں الجھے ہیں ان پر دھوکہ دہی کا مقدمہ کیوں نہیں درج کیا جا سکتا۔ ایک کمیٹی بنا کر ان ویڈیوز کی حقیقت ماہرین کی تحقیق میں پرکھی جائے کہ اگر یہ ویڈیوز جعلی ہیں تو خاتون اور اس کے حواریوں کو واقعتا نشانِ عبرت بنایا جائے کہ کل کلاں ایسا کسی اور معزز ادارے کے سربراہ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

نیب جیسے ادارے کو یہی زیب دیتا ہے کہ جو خواہشات اور امیدیں وہ سیاست دانوں اور دیگر متاثرین سے رکھتا ہے کم از کم خود ان پر عمل پیرا ہوکر ثابت کرے کہ وہ کتنا مختلف ہے۔ چیئرمین نیب خود کو تحقیقات کے لیے پیش کریں اور چیئرمین شپ سے عارضی طور پر علاحدہ ہوکر اپنا مقدمہ لڑیں اور کامیابی کی صورت میں پھر سے ادارے کے سربراہ کے طور مزید طاقت کے ساتھ سامنے آئیں۔ تاکہ ہم جیسے کم علم اور تھڑدلے لوگ جو سوشل میڈیا کی خرافات کی سیاست سے بخوبی آگاہ نہیں ہیں وہ بلا تحقیق تسلیم اور یقین کے عارضے سے نجات حاصل کرسکیں۔ اور ایسے لوگوں کا منہ بند ہوسکے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا پاکستان میں انصاف کا راستہ پینٹ کی زیپ سے ہو کر گزرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).