کیا بلاول بھٹو اور مریم نواز کو مِٹھے بابا کا مشورہ مل گیا؟


سیدھے سادے وقتوں میں بڑوں کی ایک معصوم شرارت ہوتی تھی کہ جب انہوں نے کسی دوسرے بڑے کو تنگ کرنا ہوتا یا نیچا دکھانا ہوتا تو وہ یہ کام بچوں سے کرواتے۔ مثلاً بچہ جاکر محفل میں بیٹھے مطلوبہ شخص کی پگڑی کھینچ لیتا یا بازار میں جاتے مطلوبہ شخص کے پیچھے بچے آکر اچانک اتنی زور سے چیختے کہ وہ شخص گھبرا کر پیچھے دیکھتا۔ ایسی حرکتوں کا مقصد ہوتا کہ اپنے مدمقابل شخص کو تمسخر کا نشانہ بنایا جائے۔ اگر مدمقابل شخص بچوں کی تمام شرارتیں خاموشی سے سہتا رہتا تو تمسخر کا نشانہ بنتا جو بچوں کو بھیجنے والوں کا اصل مقصد ہوتا اور اگر مدمقابل شخص بچوں پر دھاڑتا یا انہیں مارتا تو واویلا کیا جاتا کہ یہ کیسا شخص ہے کہ معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشتا۔

یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب بچے تو معصوم ہی ہوتے تھے لیکن بڑوں کی دشمنیاں بھی معصوم ہوتی تھیں۔ اب تو معصومیت کارٹونوں میں بھی نہیں ملتی۔ البتہ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی افطار ملاقات کے اصل حالات جان کر بڑوں کی بچوں کے ذریعے مدمقابل کو نیچا دکھانے کی مندرجہ بالا معصوم شرارت یاد آگئی۔ جواں سال نئی نسل کی اِس نئی طرز کی ملاقات کے آرکی ٹیکٹ نواز شریف ہیں یا آصف زرداری یا دراصل کوئی اور، اِس پر فی الحال زبان بند ہی رکھی جائے تو بہتر ہے۔

تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاست کو اس طرح نئی نسل کے حوالے کرنے کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ اگر نقطے ملائیں تو لکیر کچھ یوں بنتی ہے کہ بلاول بھٹو جیل میں نواز شریف سے ملاقات کرنے گئے جسے تمام جمہوری حلقوں اور اپوزیشن جماعتوں نے سراہا۔ اس کے بعد نواز شریف کو علاج معالجے کے لیے جیل سے چھ ہفتے کی عارضی رہائی مل گئی۔ بات یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ اِن چھ ہفتوں کے اندر ہوسکتا ہے کچھ ملاقاتیں، کچھ ٹیلی فون کالز اور کچھ اشارے کنائے ہوئے ہوں جو مستقبل کی سیاسی حکمت عملی تیار کرنے میں مددگار بنیں۔

اسی دوران ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ شہباز شریف عدالت سے اجازت سے لے کر علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے۔ وہاں اُنہیں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے علاج کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اہم انٹرنیشنل رابطوں کی سہولت بھی مل سکتی تھی جن کی بگنگ برطانیہ جیسے شہری آزادی کے علمبردار ملک میں آسان کام نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بلاول بھٹو کی نواز شریف سے جیل میں ملاقات، نواز شریف کی چھ ہفتوں کی عارضی رہائی اور شہباز شریف کے لندن میں قیام کے حوالے سے واقفانِ حال صحافی کچھ عرصے بعد اپنی رپورٹوں، کالموں یا کتابوں میں ضرور کچھ نہ کچھ خاص باتیں لکھیں۔

فی الحال بلاول بھٹو اور مریم نواز کی افطار ملاقات کو دیکھا جائے تو گیند تمام باؤنڈریز پار کرتے ہوئے تماشائیوں کے درمیان جاگری ہے۔ بیشک الیکٹرانک میڈیا اور اگلے دن کے اخبارات میں اِس افطار ملاقات کی خبر کو اپنے اصل مقام پر رینک نہیں کیا گیا لیکن مدمقابل کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں دور سے دیکھی جاسکتی تھیں۔ عمران خان اپنی پارٹی کے چیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی ہیں۔ بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے چیئرمین اور محض ایم این اے ہیں جبکہ مریم نواز اپنی پارٹی کی نائب صدر اور کسی اسمبلی کی رکن نہیں ہیں۔

گویا بلاول بھٹو اور مریم نواز وزیراعظم عمران خان کے موجودہ سٹیٹس کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں اِس افطار ملاقات پر ردعمل مشیر اطلاعات یا کسی دوسرے پارٹی رکن تک کا ہی ہونا چاہیے تھا مگر لگتا ہے افطار ملاقات کا جھٹکا اتنا زور کا تھا کہ عمران خان جوکہ وزیراعظم ہیں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور بیان داغ دیا۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے توپ سے چڑیا کا شکار کرنے والا محاورہ بنایا گیا تھا۔ ٹیکنیکل طور پر وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان بلاول بھٹو اور مریم نواز کی پہلی سیاسی جیت تھی۔

اگر یہ بلاول بھٹو اور مریم نواز کی پہلی سیاسی جیت تھی تو بات واضح ہے کہ یہ کس کی پہلی سیاسی شکست تھی۔ پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کے لیے ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی پڑتی ہے کہ ہماری سیاست کے اہم واقعات خودبخود پیش نہیں آتے۔ اِس چھوٹے سے لفظ خودبخود کو جو بھی سمجھ جائے وہ ہماری سیاست کے گورکھ دھندے کو خودبخود سمجھ جاتا ہے۔ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا لیکن کیا معلوم کسی کونے میں بیٹھے تھوڑے سے لوگ ملک کی سیاست کی باگ ڈور ملک کی اصل سیاسی جماعتوں کو واپس لوٹانے کے بارے میں سوچنا شروع کرچکے ہوں۔

پی ٹی آئی کی طرف سے بلاول بھٹو اور مریم نواز کی افطار ملاقات کو ناکام اور ابو بچاؤ ملاقات کہا جارہا ہے یا مریم نواز کی طرف سے حمزہ شہباز کو کارنر کرنے کا کہہ کر مسلم لیگ ن میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن یہ سب گیلے پٹاخوں کی طرح ٹھس ہو جانے والے پٹاخے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں پی ٹی آئی بلاول بھٹو اور مریم نواز کو آپس میں بھی بدظن کرنے کی کوشش کرے۔ ایک گاؤں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں کے بابے بہت سمجھدار ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ وہاں سے بارات دوسرے گاؤں گئی تو لڑکی والوں نے پابندی عائد کردی کہ بارات میں صرف سو نوجوان ہوں گے اور کوئی بابا شامل نہیں ہوگا کیونکہ نوجوان باراتیوں کو لڑکی والوں کے گھر پہنچ کر اپنی سمجھ سے ایک شرط پوری کرنا ہوگی۔ لڑکے والوں کو اِس پر پریشانی لاحق ہوئی۔ اُسی وقت اُن کے ایک مِٹھے نامی بابے نے کہا کہ ”پترو گھبراؤ نہیں، ایک صندوق لو جس میں مجھے چھپا کر ساتھ لے چلو“۔ جب بارات لڑکی والوں کے گھر پہنچی تو انہوں نے اپنی شرط بتائی کہ ہم لڑکی اُس وقت روانہ کریں گے جب بارات کے سو نوجوان سو بکرے کھائیں گے۔

نوجوان باراتیوں کے لیے یہ مسئلہ پریشان کن تھا۔ اچانک انہیں صندوق میں چھپے مِٹھے بابا سے مشورے کا خیال آیا۔ مِٹھے بابا نے کہا کہ ”پترو گھبرانا نہیں، تم لڑکی والوں کو کہو کہ ان کی شرط منظور ہے، بس ایک ایک کرکے بکرا لائیں“۔ جب لڑکی والے ایک بکرا لاتے تو سو نوجوان اسے فوراً ختم کر دیتے۔ یوں سو بکرے باری باری ختم ہوگئے اور مِٹھے بابا کی دانش مندی سے باراتی جیت گئے۔ لگتا ہے بلاول بھٹو اور مریم نواز کو کسی مِٹھے بابا نے کوئی مشورہ دے دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).