عوام کو ریلیف دیں!


مشیر خزانہ حفیظ شیخ کہہ چکے ہیں کہ مہنگائی ایک مسئلہ ہے جس کے باعث حکومت خود پریشان ہے تیل کی قیمت کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں نہیں پھر بھی اخراجات کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کیے جا رہیں۔ دوسری طرف مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ عوام بجٹ میں تکلیف کے لئے تیار رہے جبکہ وزیر اعظم بھی اپنی تقریر میں یہ برملا کہہ چکے کہ جب تک ملکی قرض نہیں اترتا عوام کے لئے مشکل وقت رہیگا۔ اس خلاصہ سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ فی الحال عوام کو ریلف فراہم کرنے کے لئے حکومتی اقدامات کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔

موجودہ ملکی حالات کا زائچہ تو یہ بتا رہا ہے کہ جیسے حکومتی بیانات اس کی بے بسی کو ظاہر کر رہے ہیں اب ڈالر نے جو اڑان بھری ہے اس سے عوام کے اعصاب پر مزید مہنگائی کا عفریت حملہ کرنے کو تیار ہے جس سے یقیننا موجودہ حکومت کے ایسے اقدامات کے باعث عوام تبدیلی سرکار سے مزید بد دل ہو جائے گی۔ کمر شکن مہنگائی کے سونامی نے پہلے ہی اشیائے ضروریہ عام آدمی کی دسترس سے دور کر دی ہیں اس وقت ملک بدترین معاشی بد حالی سے دوچار ہے برامدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں زرمبادلہ کے زخائر کم ترین سطح پر ہیں ریاستی امور چلانے کے لئے حکومت کے پاس پیسے نہیں جس سے ملک میں معاشی زبوں حالی کے سونامی نے عوام کو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

موجودہ حکومت پر مفاد عامہ کے برعکس فیصلوں کی وجہ سے عوام کے تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو کہ اس وقت احتساب کے عمل سے گزر رہی ہیں ملک کے موجودہ حالات نے گویا ان کے سیاسی تن مردہ میں پھرسے جان ڈال دی ہے اور بلاول کے سیاسی افطار ڈنر پر تمام اپوزیشن جماعتوں نے عید کے بعد روز افزوں بڑھتی مہنگائی کے پیش نظر اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

اپوزیشن کا اصل مسئلہ مہنگائی نہیں اہل دانش بخوبی سمجھتے ہیں کہ شریف برادران اور زرداری نیب اور حکومت پر اس تحریک کے ذریعے ضروردباؤ بڑھا سکتے ہیں جس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوگا اور حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا اوریہ ملک معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہو جائے گا اور یہ صورتحال ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بڑی تکلیف دہ ہو گی۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کی کابینہ کے وزراء اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے عوام کو اپنے قول و فعل سے مایوس کن صورتحال سے دوچار کر رہے ہیں ایسی صورتحال میں عوام کو دور دور تک تبدیلی سرکارکے اقدامات کی بدولت ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر عوام صبر اور برداشت کا پیمانہ طے کر سکے۔

عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت کرپٹ افراد کا احتساب کر رہی ہے عوام تو حکومت کے اقدامات سے پریشان ہے کہ قومی دولت اور وسائل لوٹنے والے قومی مجرموں کے کیے دھرے کی سزا انہیں کیوں دی جارہی ہے بے شک کرپٹ افراد کو حکومت چوک چوراہوں میں الٹا لٹکا دے لیکن عوام سے کیے وعدوں کی پاسداری کے بر عکس ایسے اقدامات نہ اٹھائے جائیں جس سے عوام کی کمر میں مزید خم پڑ جائے۔ سات دہائیوں سے خودساختہ جمہوریت کے پروردہ حکمرانوں نے پہلے ہی اس عوام کو فریبی نعروں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی عوام کی ترجیحات کے مطابق اقدامات نہ اٹھا سکی تو پھر اس ملک اور عوام کو بحرانوں کی دلدل سے کوئی نہیں نکال سکتا۔

ملک کی نصف سے زائد آبادی پہلے ہی خط غربت کی لکیر کے نیچے بنیادی سہولیات کے بغیر اپنے شب و روز بسر کر رہی ہے عوام نے موجودہ حکومت کو اس لئے منتخب نہیں کیا تھا کہ عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا جائے۔ عوام تو پہلے ہی اس سے قبل حکمرانوں کے روٹی ’کپڑا اور مکان‘ بدلتا پاکستان اور کھپے پاکستان جیسے دلپذیر نعروں کے نشتروں سے چھلنی ہے شاید تحریک انصاف کی حکومت ان زخموں کا مرہم بنتی لیکن حکومت نے عوام کو اپنے اقدامات اور بیانات کی بدولت مایوسی کے دوراہے پر لا کھڑا کیا۔

المیہ یہ ہے کہ چاروں موسموں سے مزین ’بہترین آبپاشی نظام‘ زراعت ’قدرتی ذخائر‘ بہترین جغرافیہ کا حامل ملک اپنی عمر کی اکہتر بہاریں گذارنے کے باوجود اغیار کی دی ہوئی بیساکھیوں کے سہارے لاغر قدموں سے چل رہا ہے۔ ایماندار اور پرعزم قیادت کے فقدان کے باعث یہ ملک ابھی تک اپنی اساس سے آشنائی حاصل نہ کر سکاجس کی وجہ سے ہر آنے والے اشرافیہ حکمرانوں نے اس بے دردی کے ساتھ اس کی قومی دولت اور وسائل کے ساتھ کھلواڑ کیا کہ اس ملک میں پیدا ہونیوالے ہر نومولود کی سانسیں تک صیہونی و دجالی قوتوں کے پاس گروی رکھ دیں۔

اس وقت معشیت کی ناؤ ڈوبتی چلی جا رہی ہے ادارے خساروں کے بوجھ کے باعث تباہ حال ہیں ’کمر شکن مہنگائی‘ بیروزگاری ’دہشتگردی‘ انصاف کی عدم دستیابی ’کرپشن و بدعنوانی جیسے مہلک مسائل کھٹن چیلنجز بن کر حکومت کی گرہ سے بندھ چکے ہیں لیکن تاحال حکومت ریاستی امور تک چلانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ آنے والے دن عوام کے لئے کسی سوہان روح سے کم نہیں جس کے باعث عوام کو ان مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لئے پل پل ذہنی‘ قلبی اور اعصابی اذیت سے گزرنا پڑے گا۔

ان حالات سے قطع نظر حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے منظور نظر بجٹ میں عوام پر اعصاب شکن ٹیکسز کا بوجھ نہ بڑھائے جس سے مزید مہنگائی بڑھے اور عوام ایسی تبدیلی سے بلبلا اٹھے۔ عوام تو پہلے ہی اکہتر برس سے حکمرانوں کی دی گئی خود ساختہ جمہوریت کے عوض حیرت کدوں کے در پر سر پھٹکتی جمہوری لوازمات کی تلاش میں سرگرداں ہے اگر یہ حکومت بھی اسے طوطا چشم دلپذیر وعدوں کی بھینٹ چڑھا دے گی تو پھر یہ عوام جو پہلے ہی سیاسی دھوکہ منڈی میں نیلام ہوتی آرہی ہے اس کو اس فریبی سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لئے کون سا مسیحا آئے گا۔

گو حالات مشکل ترین ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ریلیف دے کیونکہ اس حکومت کے ساتھ عوام اور آنیوالی نسل نو کا مستقبل وابستہ ہے۔ روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اورصحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹر آئین پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق چاہیے۔ ہر وہ حکمران روز محشر جوابدہ ہے جو عوام کے دوام سے مسند اقتدار پر براجمان ہوا ہے وزیر اعظم عمران خان نے جو عوام کی آنکھوں میں خوش کن تبدیلی کے خواب چنے ہیں ان کو ٹوٹنے سے بچائے عوام نیا پاکستان کی شکل میں مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے لئے آپ کی پشت پر کھڑی ہے لیکن عوام کی ترجیحات کے بر عکس فیصلے نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).