تنقید برائے اصلاح


ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم سب کے سب سیانے ہیں۔ ہم بات کو سن کر اس کی گہرائی پر غوروفکر کرکے اس کو سمجھنے کی بجائے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ آپ اس بات کی آزادی رکھتے ہیں کہ آپ کسی کی بات سے غیر متفق ہو سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں یا دوسرا بالکل غلط ہے، آپ غیر متفق ہیں تو آپ اپنی رائے دیں بھڑاس نہ نکالیں، نہیں جی! ہم نے تو تنقید ہی کرنی ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک ذہانت کا پیمانہ تنقید کرنا ہے، بات کو سمجھنا نہیں۔ اس وقت شاید میں بھی تنقید ہی کر رہی مگر اس کا مقصد محض بات کو واضح کرنا ہے اور کچھ نہیں۔

میری پچھلی تحریر کو پڑھ کر ایک محترمہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی وحشی درندہ کہیں آ بسے تو عقلمندی یہ نہیں کہ خود کو گھر میں بند کر لیا جائے بلکہ صحیح فیصلہ یہ ہے کہ اس سفاک درندے کو زندہ درگور کردیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا گہ وہ سفاک درندہ ہے یا نیک اور پارس انسان؟ اس کے لیے ایک آدھ جان کی قربانی دے کر ہم ٹیسٹ کریں کہ یہ اگر درندہ ہے تو زندہ درگور کرتے ہیں؟ تو کیا اس ایک جان کی کوئی وقعت نہیں؟

یا ہم لوگ بچے ہی اس لیے پیدا کرتے ہیں کہ سفاک درندے ڈھونڈ کر ان کا خاتمہ کرسکیں؟ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو موقع میسر ہوگا تو بہت سے وجود اگر اپنے آپ پر قابو پا بھی لیں تو ایک آدھ تو اپنی حیوانیت کا نظارہ کروا ہی دے گا۔ لہذا محترمہ کا خیال ہے کہ والدین اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور گلی گلی درندوں کی تلاش میں لگ جائیں۔

اگر ملزم کو زندہ درگور کرنا اہم ہے تو پھر قصور میں زینب اور بیشتر ننھی پریوں کے قاتل عمران کو پہلے ہی سانحہ پر زندہ دفن کیوں نہ کیا گیا؟ اتنی جانوں کی قربانی کیوں دی گئی؟ کیا اس لیے کہ باقی تمام واقعات میں غفلت کی نیند سوئے رہنے والے لوگ خدا کے خوف سے جھنجھوڑ دیے گئے؟ یا اس لیے کہ میڈیا نے بھرپور کوریج بخشی؟ اگر ایسا ہے تو پھران تمام بچیوں کے قاتل عمران سے زیادہ یہ معاشرہ، میڈیا، آپ اور میں سب کے سب ہوئے۔ وجہ کچھ بھی ہو اگر سب مل کر اپنا اپنا گھر سنوار لیں تو معاشرہ بھی سدھر سکتا ہے۔ تو اگر ہم عمران کو ڈھونڈ کر سزا دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یا پھر ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس معاشرے میں کون کون عمران ہے، لوگوں کے چہرے نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اپنے بچوں کی خفاظت کرنے میں تو کچھ گناہ نہیں۔

چور کی داڑھی میں تنکا کی بنا پر محترمہ نے ”تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے“ کی بھرپور مذمت کی کہ ان کے مطابق خواتین کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ مانا کہ ان کا قصور نہیں ہمارے معاشرے کا قصور ہے۔ فحاشی پھیلانے والے میڈیا کا قصور ہے۔ ہمارے اس جج کا قصور ہے جو کہ فیصلوں کو مدتوں لٹکا دیتا ہے جس کی بدولت مظلوم انصاف سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہ سب کے سب مل کر ملزم کی ڈھارس بھاندتے ہیں اس کی دستک پر دروازہ کھول کر اسے دوسرا ہاتھ فراہم کرتے ہیں۔ میں پھر یہی کہوں گی کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، موقع فراہم ہوتا ہے تو جرم تک رسائی ملتی ہے، اب اسی کیس کو ہی دیکھ لیں کہ زینب کے ماں باپ اگر اسے اکیلا نہ کرتے تو شاید کوئی عمران اس تک نہ پہنچ پاتا۔

اب شاید آپ سمحجھ سکیں کہ عمران کے لیے دروازہ کس نے کھولا؟ میڈیا نے؟ زینب کے ماں باپ نے؟ غفلت کی نیند سوئے تنقیدی معاشرے نے؟ یا پھر یہ ان سب کی ملی بھگت تھی؟ آخر میں بس اتنا کہوں گی کہ لوگوں کے یہ ٹیسٹ کرنے کی بجائے کہ وہ حیوان ہیں یا نیک، گلے میں بانہیں ڈالیں یا زندہ درگور کریں انہیں، اپنے بچوں کی حفاظت کریں، اپنے آپ کو تالی کا دوسرا ہاتھ بننے سے بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).