ففتھ جنریشن وار


پہلی جنگ عظیم سے لے کر آج تک دنیا میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی، اور اب دہشت گردی کی رخ اختیار کر لی گئی، ان سب کو مختلف ناموں سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان سب کو فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ اور فورتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے کچھ دانشوروں اور سیاست دانوں کا ماننا ہیں کہ اب جنگ نے ایک نئی اور بہت بھیانک شکل اختیار کر لی ہے۔ جس کو ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ لیکن دنیا کے باقی ممالک میں اس چیز پر اتنا یقین نہیں کیا جاتا جتنا پاکستان میں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ہمیشہ سے نیشنل سیکورٹی کے سنگین خطرات سے گزرا ہے، ایک طرف مشرقی سرحدوں پر خطرہ تو دوسری طرف مغربی سرحدوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مداخلت بھی ہمیشہ سے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا تا رہا ہے۔ اور اسی طرح ملک میں موجود کچھ لوگوں کے کانوں میں ففتھ جنریشن وار کی آوازیں سنائی دینے لگ گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جنگ کی یہ نئی قسم افریقہ، جنوبی ایشیاء میں خاص طور پر پاکستان اور مشرقی وسطیٰ کے عرب ممالک بالخصوص خلیجی ریاستیں اس جنگ کا میدان بن سکتی ہیں۔

کچھ مہینے پہلے شہر یار آفریدی نے جو وزیر داخلہ برائے مملکت بھی تھے ایس ایس پی شہید طاہر خان داوڑ کے بھائی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داوڑ کی لاش پر سیاست کی گئی اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان پر ففتھ جنریشن وار مسلط کی گئی ہے اور یہ بیان انہوں نے پختون تحفظ موومنٹ کا طاہر داوڑ کی شہادت پر احتجاجی مظاہرہ کرنے پر دیا۔ اس کے بعد میڈیا بڑے پرجوش انداز سے اس موضوع پر اتر آیا اور بہت سے جرنلسٹوں اور کالم نگاروں نے پختون تحفظ موومنٹ کو اس جنگ کا حصہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ ہی کسی ملک کے خلاف جنگ ہے اور نہ ہی کوئی بغاوت بلکہ ملک میں فساد پھیلانے کی سب سے بڑی سٹریٹجی ہے۔ اور مزید میڈیا کو ریاست نے یہ بات بتانے پر لگا دیا کہ اب یہ جنگ آرمی یہ آئی ایس آئی اکیلے نہیں لڑسکتی بلکہ عوام کو اس کے خلاف اکٹھا ہونا پڑے گا۔ لیکن اصل میں یہ جنگ ہے کس کی اور لڑی کیسے جانی ہے؟ یہ کوئی ہتھیار سے لڑنے والی جنگ نہیں بلکہ ان کے ماننے والوں کے بقول دشمن کی اس جنگ میں سب سے بڑا نشانہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنا جسے اکانومی وار فیر بھی کہا جاتا ہے، خانہ جنگی، کسی ملک کے بیرونی تعلقات کو خراب کرنا، ثقافت اور مذہب کو نشانہ بنانا، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے خلاف استعمال کرنا۔

اور ملک میں درپیش خطرات سے فائدہ اٹھانے، تعصب کے شکار معاشرے میں لوگوں کو کنفیوژن میں ڈالنا، کوئی اس جنگ کو اسلام کو خطرہ قرار دیتا ہے تو کوئی ملک دشمن عناصر کا استعمال اور کوئی اس کو انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان نسل میں فحاشی پھیلانا اور اس میں ان کو مصروف رکھنا بھی سمجھتا ہے۔ یہ سب چیزیں اس ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہیں۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ جنگ پہلے کدھر تھی؟ یہ تمام تر واقعات جو اس جنگ کا حصہ ہیں پاکستان کے وجود کے بعد آج تک کبھی پیش نہیں آئے؟

کیا ملک پہلے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار نہیں تھا؟ کیا ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پہلے سے موجود نہیں تھے؟ یہ نام اچانک سے کیوں سامنے آیا جب کہ دنیا میں کبھی کسی ملک کو ایسی کسی جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ جب شہریار آفریدی حکومت میں نہیں تھے تو تمام تر خطرات کے باوجود اس جنگ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ جب وہ اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے جاری دھرنے، پختونوں کی آواز سننے اور حکومت کو ان متاثرین کے مطالبات پرے کرنے پر زور ڈال رہے تھے اور ان سب کی آواز حکومت تک پہنچانے کے وعدے کر رہے تھے اور پی ٹی ایم کے تمام تر مطالبات اپنی سیاست چمکانے کے لیے جائز قرار دے رہے تھے تب ففتھ جنریشن وار کے کوئی خطرات نہیں تھے۔

کیا ملک کو 126 دن کے لیے معاشی بحران کی طرف دھکیلنا اور صرف 22 دن میں 547 بلین کا معیشت کو نقصان پہنچا ففتھ جنریشن وار کا حصہ نہیں؟ کیا ملکی تجارت بند کرنا اور بیرونی سرمایہ کاری اور تعلقات کو نقصان پہنچانا اس جنگ کا آغاز نہیں تھا؟ جب ملک میں سنی شیعہ کے نام پر قتل عام کیا جارہا تھا تب ملک یا مذہب کو خطرہ لاحق نہ تھا؟ یا پھر یہ تمام تر غداری ملک دشمنی اور ففتھ جنریشن وار کے سرٹیفکیٹ تب جاری کیے جاتے ہیں جب ملک کے مظلوم اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، جب قانون اور آئین کے اندر رہ کر زندگی کی بھیک مانگتے ہیں، مذید خطرات سے بچنے اور ایک پر امن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

جب حق کی آواز ملک کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتے ہیں، ملک کو فساد کے بجائے ہر طبقے اور فرقے کو اکٹھا کر کے پر امن زندگی کی خواہش رکھتے ہو تو آپ کو ففتھ جنریشن وار یا پھر غداری جسے چیزیں یاد آجاتی ہیں۔ قانون اور آئین توڑنے، آمریت کے خواہش مند، پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پلانے والوں کے خلاف تو کبھی کوئی ایسی جنگ کا علان نہیں ہوا صرف مظلوم کی آواز کو برداشت کرنے کی گنجائش نہ ہونے اور سوالات کے جوابات کی عدم موجودگی کے بنا پر ایسے بیانات دیے جاتے ہیں۔

اور یہ جنگ صرف تب شروع ہوتی ہے جب ریاست کا مرکز کمزور ہو۔ جب آپ کسی دشمن ممالک کو یہ سب کرنے کی جگہ دے اور یہ صرف تب شروع ہوتی ہے جب آپ کا یقین سولین بالادستی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی پر سے اٹھ جاتا ہے۔ اور آپ اپنی کمزوری کے باعث کسی بھی ملک کو یہ موقع دیتے ہیں کہ آپ کے ملک میں یہ جنگ شروع کرے۔ لیکن یہ سب آج تک کسی اور ملک میں کیوں نہیں ہوا؟ سعودیہ اور چائنہ یا دیگر ممالک میں کوئی یہ سب کرکے دکھائیں۔

جب آپ اپنے آئین اور قانون پر توجہ دیں اور ملک کے لوگوں کے مسائل آرام سے سننے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں، جب ملک میں دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کریں، گڈ اور بیڈ طالبان میں فرق ختم کریں، ہزاروں لاپتا افراد کی نشاندہی کریں اور ان کو عدالت میں پیش کریں اور عوام کے اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ پر ففتھ جنریشن وار مسلط نہیں کرسکتی۔ بلکہ آپ مضبوط اور مستحکم پاکستان بنانے اور تمام تر نقصانات کا ازالہ بھرپور طریقے سے کرسکتے ہیں۔

اکرام اللہ محسود
Latest posts by اکرام اللہ محسود (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).