میرے ماموں مظہر کلیم کی پہلی برسی پر اُن کی یاد میں


وہاں بھی محفل کی وہ جان ہوتے اور تھوڑی دیر بعد قہقہے بلند ہو رہے ہوتے۔ لیکن ان کی حس مزاح میں بازاری پن بالکل نہ تھا۔ میں نے کبھی ان کے منہ سے اپنے دوست وکیلوں کی محفل میں بھی غلط بات نہ سنی۔ مجھے ہمیشہ یہی حیرانی ہوتی کہ وہ اپنے کیسسز کی تیاری کیسے کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت مصروف وکیل تھے۔ اس کا انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ کام وہ علی صبح کچہری آنے سے پہلے کر کے آتے ہیں۔ ایک بار صرف دوستوں کے اصرار پر بار الیکشن میں حصہ لیا، ساری مہم بھی دوستوں نے چلائی اور وہ بار کے سینئر وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئے۔ بعد میں دوبارہ حصہ لینے سے معذرت کر لی کہ ان کے پاس پہلے ہی وقت کی بہت کمی تھی اور وہ مزید ذمہ داریاں نہ اٹھا سکتے تھے۔

چائے اور سیگرٹ، ان کے دو شوق تھے اور اکثر کہتے تھے کہ اگر چائے اور سگریٹ کی اجازت ہو تو بے شک سارا سال روزے رکھوا لیں۔ نانی اماں کو ہمیشہ ان کی سگریٹ کی عادت کی پریشانی رہتی اور وہ ان کے کالج کے دوستوں کو الزام دیتیں جنہوں نے انہیں سگریٹ کی عادت ڈال دی۔ لفظ ’دوست‘ ہمارے گھر میں اسی لیے منفی انداز میں لیا جاتا تھا اور ہمیشہ ’دوستوں‘ سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ قبل جب ڈاکٹر نے ان کو سگریٹ چھوڑنے کا کہا تو انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ جوانی کے سب دوست اور سب نشانیاں ساتھ چھوڑ گئیں اور اب یہ آخری چیز ساتھ ہے، اسے بھی چھوڑ دوں تو کیا کروں گا۔ لیکن اپنے ناولوں میں انہوں نے عمران کو چائے کا عادی تو دکھایا لیکن سگریٹ سے دور رکھا کیونکہ انہوں نے ناول سے قارئین کی کردار سازی کو بہت اہمیت دی۔

ان کے انتقال کی خبر پر جناب بلال قطب کی تحریر کے اپنا لڑکپن یاد کروا دیا یا قاری حنیف ڈار کا کہنا کہ ہمارا لڑکپن ان کے ساتھ دفن ہو گیا، میرے بھی دل کی آواز ہے۔ ان کے ناولوں کا ہمیشہ شدت سے انتظار ہوا کرتا تھا اور مشکل سے پہلی تاریخ تک انتظار کرتا تھا اور تاریخ آنے پر میں اپنا مفت سیٹ حاصل کرنے کے لئے پاک گیٹ شام کے وقت محلہ امیر آباد سے سائیکل پر جایا کرتا تھا۔ وہ کوئی ذہنی کام سگریٹ کے بغیر نہ کر سکتے تھے اور ان کا سگریٹ کو مٹھی بنا کر چھوٹی انگلی میں رکھ کر کش کھینچنے ہوے، پاک گیٹ کی سڑک کے شوروغل میں ناول تحریر کرنا کل کی بات لگتی ہے۔

پہنچتے ہی سلام دعا کے بعد میں نئے مہینے کے ناولوں کی فرمائش کرتا اور وہ اشرف قریشی صاحب کو کہتے کہ ایک سیٹ اسے دے دیں۔ سیٹ لیتے لیتے کچھ پرانے ناولوں پر بھی نظر پڑتی اور جی ان کے لئے بھی للچا جاتا اور ماموں نظروں میں ہی پہچان جاتے اور اشرف صاحب کو ان کہانیوں کا سیٹ دینے کو بھی کہ دیتے۔ بہن اور بھائی گھر پر میرے انتظار میں بے تاب ہوتے تھے اور گھر واپس پہنچنے ہر پہلے پڑھنے کے لئے لڑائی ہو جاتی تھی جس میں میرے چھوٹے بھائی عثمان کو ہار ماننا پڑتی تھی اور اس انتظار کا غصہ اس کو ابھی تک ہے۔

وہ رات سونے کی بجائے ناول ختم کرنے میں استعمال ہوتی تھی۔ مجھے ہمیشہ اس چیز کا اشتیاق ہوتا کہ وہ یہ دلچسپ ناول کس طرح لکھ لیتے ہیں لیکن وہ اپنی تعریف کے بالکل قائل نہ تھے اور اس سوال کو ٹال دیتے اور کبھی کوئی بڑا بول نہ بولتے۔ شاید اپنی تعریف نہ کرنے کی عادت نے انہیں نقصان بھی پہنچایا کیونکہ دنیا میں دوسروں سے تعریف کروانے کے لئے اپنا ڈھول پیٹنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کچھ عرصہ قبل فیملی میگزین میں شائع شدہ انٹرویو جس میں انہوں نے اپنے ناولوں کی تعریف کی اور ان کو ابن صفی سے مختلف اور زیادہ موضوعات کا حامل قرار دیا، میرے لیے کافی حیرانی کا باعث بنا۔ ابن صفی کے شائقین نے اس پر بہت اعتراض کیا اور شوروغل برپا کیا حالانکہ ادیب ہمیشہ اپنے کاموں کی تعریف کرتے آئے ہیں۔

مظہر کلیم کی عمران سیریز، ابن صفی کے شائقین کے نزدیک غیر معیاری تھیں اور انہوں نے ہمیشہ یہ احتجاج کیا کہ کسی بھی لکھاری کا حق نہیں بنتا کہ وہ عمران کے کردار کو خراب کرے۔ لیکن نئی نسل میں مظہر کلیم کی عمران سیریز کی مقبولیت ان کی شدید مایوسی کا باعث بنتی اور وہ ہر جگہ اس پر احتجاج کرتے اور صرف تنقید برائے تنقید پر گزارہ کرتے۔ سکول کالج میں تو جو بھی ملے، انہوں نے عمومی طور پر عمران سیریز کا آغاز مظہر کلیم سے ہی کیا تھا لہٰذا وہ اس سلسلے میں جانبدار نہ تھے لیکن مجھے انٹرنیٹ پر بہت سے گفتگو کے فورم پر مظہر کلیم کی عمران سیریز کا دفاع کرنا پڑا۔

میں کسی شک میں نہیں ہوں کہ ابن صفی نے یہ کردار ایجاد کیا اور اسے مقبول ترین بنایا لیکن میرے نزدیک ماموں کی وجہ سے اس کردار کو مزید مقبولیت ملی اور دوام حاصل ہوا۔ ابن صفی کے شائقین کو تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ماموں کی عمران سیریز کا مکمل سٹائل، ابن صفی سے مختلف تھا، ابن صفی مسٹری رائٹر تھے اور ماموں ایکشن مووی کے رائٹر۔ ابن صفی کا ناول صرف عمران کے گرد گھومتا تھا اور ولن پس منظر میں اپنا کام کر رہا ہوتا تھا جس کی شناخت آخر میں ڈراپ سین میں ہوتی۔

اس کے برعکس ماموں کے ناولوں میں دونوں اطراف سے کہانی چلائی جاتی اور قاری ڈراپ سین کا انتظار کرتا جس میں سسپنس اور ایکشن کا حسین امتزاج ہوتا۔ ابن صفی کے شائقین کی شاید خواہش تھی کہ ماموں، اپنے آپ کو ابن صفی سے کمتر تسلیم کریں، عمران کا کردار استعمال کرنے کے جرم پر معافی مانگیں لیکن ماموں نہ ہی اپنی تعریف کے قائل تھے اور نہ ہی وہ اس بحث میں حصہ لینے کو تیار تھے۔ وہ صرف لکھنے کے شوقین تھے اور باقی کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے تھے۔

کبھی انہوں نے اپنے حق میں لوگوں کو کہہ کر کالم نہ لکھوائے جس کی وجہ سے ادبی حلقوں میں ان کا دفاع کوئی نہیں کرتا تھا۔ وہ تو اپنے شائقین سے ملنے سے بھی گریز کرتے تھے کیونکہ وہ گفتگو ان کی تعریف سے بھرپور ہوتی تھیں جس سے وہ بہت مشکل میں پڑ جاتے تھے، ایک دفعہ ایک واقعہ خود انہوں نے ہنستے ہوئے سنایا کہ ایک شائق ان سے ملنا پاک گیٹ اشرف بک ڈپو پر پہنچا لیکن ناول والی تصویر سے فرق کے باعث ان کو پہچان نہ سکا اور ان سے مظہر کلیم کے بارے میں دریافت کیا، ماموں نے موقع غنیمت جان کر خود کو صفدر شاہین متعارف کروایا اور بتایا کہ مظہر کلیم تو سوئٹزرلینڈ میں ریتا ہے اور اسے یہاں کسی نے نہیں دیکھا۔

میں نے ابن صفی کے ایک ناول میں خود یہ چیلنج پڑھا ہے کہ بہت سے لوگ عمران سیریز لکھ رہے ہیں اور میں نے کسی پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ عمران سیریز صرف وہی بکے گی جس کے مصنف کے نام میں صفی شامل ہو گا۔ اس لحاظ سے وہ ابن صفی کا چیلنج قبول کر کے کامیاب ہو گئے اور ابن صفی کے شائقین کو اس میں کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3