رمضان میں مسیحی برادری کے لئے ہوٹل کھلا ہے


چند دن قبل کسی عزیز دوست کی سماجی رابطوں کی دیوار پر ایک ہوٹل کی طرف سے آویزاں کیے گئے اشتہار کی تصویر ملاحظہ کی جس میں لکھا تھا کہ۔ یہاں بچوں، بزرگوں، مریضوں اور مسیحی برادری کے لئے کھانا دستیاب ہے۔  بلاشبہ یہ اک مثبت عمل ہے کہ غیر مسلم، کمزور یا بیمار لوگ چونکہ روزے سے نہیں ہوتے اس لئے ان کو کھانے پینے اور جینے کا حق دینا بہت ضروری ہے۔ پوسٹ پر دوستوں کی اکثریت اس عمل کی داد دے رہی تھی لیکن میں اس متن کو سوچ کر نہ جانے کیوں مسکرانے لگا۔

مجھے اس اشتہار میں لفظ۔ ”مسیحی“۔ بیماروں، بوڑھوں، مسافروں اور بچوں کے لئے دن کے وقت دستیاب کھانے کی دعوت سے زیادہ رمضان میں دن کے وقت ہوٹل کھولنے کا جوازمعلوم ہوا۔ میرے خیال میں اگر اس ہوٹل میں داخل ہوا جائے تو پورے ہوٹل میں کوئی بھی بچہ، بوڑھا، بیمار یا مسیحی کھانا کھانے کے لئے موجود نہیں ہوگا، ہوں گے تو صرف ہمارے جوان جہاں مومن بھائی، لیکن قانون اور معاشرے سے بچنے کے لئے کچھ دیر کو مسیحی بننے میں کیا قباحت؟ بھوکا پیٹ مذہب تھوڑی پوچھتا ہے صاحب۔

پاکستان قیام کے دوران جب کبھی بھی ہم خیال دوستوں کی محفل ہوتی تب مشروب خاص کا موجود ہونا ضروری ہوجاتا، اک مسلمان کے لئے پاکستان جیسے ملک میں مشروب خاص حاصل کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ زندہ ہوتے ہوئے جنت کی سیر کی ٹکٹ مانگ لینا۔ ایسے مشروب کے حصول کے لئے ہمارے مسیحی یا ہندو بھائی کام آتے ہیں، ان کے نام پر لائسنس موجود ہوتے ہیں، وہ کسی بڑے ہوٹل یا جمخانہ میں پارکنگ میں موجود مطلوبہ مشروب آپ کی گاڑیوں میں پہنچاتے ہیں یا پھرتھوڑی اضافی رقم لے کر ہوم ڈیلیوری کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔

مئے نوشوں کے لئے اقلیتی بھائی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے کیونکہ ان کے دم سے ہی محفلوں میں رنگینی اور حلق میں شیرینی حلول فرماتی ہے۔ ہمارا بھی اک یار تھا جو کہ مسیحی ہونے کا اعزاز رکھتا ہے سو جب جب مطلوبہ مشروب درکار ہوتا ہم اپنے جاننے والے مسیحی بھائی کو کال کرتے اور وہ الہ دین کے جن کی طرح حاضر ہو جاتا، ویسے ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ہم ایسا کیا رگڑتے تھے کہ جن حاضر ہوتا تھا کیونکہ ظاہر ہے ہمارے پاس چراغ تو تھا نہیں۔ جب جب وہ دوست ہماری طرف سامان راحت لے کر آتا، گھڑی دو گھڑی بیٹھتا، قیمت وصول کرتا اور پھر چلا جاتا۔

چند ایک بار جب ابھی وہ ہمارے فلیٹ پر ہی موجود تھا کہ صدر دروازہ دھڑ دھڑ بجنے لگا، اتفاق سے دونوں بار ہی مہینے کچھ ایسے تھے کہ پکڑے جاؤ تو خاطر تواضع فرض ٹھہرتی اس لئے ہم ذرا ڈر گئے، ہمیں گھبرایا ہوا دیکھ کر دوست ہنسنے لگا اور کہا۔ میں مسیحی ہوں، میرے پاس ویسے بھی لائسنس ہے، بے فکر رہیں اگر پولیس بھی ہوئی تو میں کہہ دوں گا میں پی رہا ہوں جبکہ باقی لوگ صرف میرے ساتھ گپ شپ کر رہے ہیں۔ میرے پاس اس کے پینے کا قانونی جواز موجود ہے۔ خیر دروازے پر کوئی اور تھا، دوست نے ڈیلیوری دی اور اپنی راہ لی۔

نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ ہم اقلیتوں کا تحفظ کرنے کے بجائے، ان کو سہولتیں پہنچانے کے بجائے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی مشروب کے حصول کے لئے، کبھی رمضان میں دن کے وقت ہوٹل کھولنے کے لئے، کبھی اپنی این جی اوز کے خشک بینک اکاونٹ ڈالروں سے سیراب کرنے کے لئے، ہم صرف اور صرف ان کا استعمال کرتے ہیں۔ عام آدمی سے لے کر این جی اوز اور ایوانوں تک اقلیتوں کے نام پر ہمیشہ اکثریت کا پیٹ بھرتا ہے، مظلوم اور کمزور کی تصاویر لگا کر ہم خود طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

کمزوروں کے لئے کوئی حل ملے نہ ملے، ان کے مسائل حل ہوں نہ ہوں مگر بینرز لگانے والے، واک کرنے والے اور بلز پیش کرنے والے امیر ہوجاتے ہیں، جن کے لئے آواز اٹھائی جائے وہ ٹین کی چھت تلے پانی سے سوکھی روٹی کھانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن آواز اٹھانے والوں کی دو چار سال میں کوٹھیاں اور گاڑیاں بن چکی ہوتی ہیں۔

مذہبی منافقرت کا یہ عالم ہے کہ اقلیت کا مرد قابل نفرت اور عورت (لڑکی) قابل محبت ہوتی ہے۔ ہزاروں غیر مسلم لڑکیوں کی شادی مسلمانوں سے ہوتی ہے یا زبردستی کروا دی جاتی ہے لیکن دونوں صورتوں میں کسی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ ان شادیوں کو چیلنج کر سکے کیونکہ لڑکی غیر مسلم ہے، لیکن کروڑوں میں سے کوئی ایک مسلمان عورت اگر غیر مسلم کو پسند کرلے، اس کا اظہار کر دے تو ہماری اجتماعی غیرت اور ایمان جاگ جاتا ہے۔

اس کے بعد مسلمان لڑکی تو شاید بچ جائے لیکن غیر مسلم مرد کی زندگی کی گارنٹی تو بھگوان بھی نہیں دے سکتا کیونکہ ہم کو شوہر اپنی ذات، برادری اور دھرم کا حامل ہی چاہیے۔ لڑکی کس مرد کے ساتھ سوئے گی اور کس کے ساتھ نہیں سوئے گی یہ ہم بڑے مل بیٹھ کر طے کرتے ہیں، پھر چاہے لڑکی سونا تو دور کبھی جاگ بھی نہ پائے۔ ہر حسین غیر مسلم لڑکی پر اپنا حق ہے، کہ بہلا پھسلا کر، محبت کی قسمیں کھا کر یاکوئی لالچ دے کر استعمال کی جا سکتی ہے، بیاہی جا سکتی ہے، تب وہ غیر مسلم اور قابل کراہت نہیں ہوتی کہ بھلا حسن بھی کبھی غیر مسلم ہوا ہے؟

جائز و ناجائز طریقے سے، کسی بھی طرح امریکا، کینیڈا، یورپ یا آسٹریلیا پہنچ جانے والوں کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان کو اسائلم مل جائے۔ وہ کبھی ہزارہ شیعہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں، کبھی احمدی ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو کبھی ہم جنس پرست یا پھر ملحد ہونے کے شواہد دیتے پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پاکستان میں احمدی، ہم جنس پرست، ملحد یا مسیحی کو پاس بیٹھے دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے لیکن ضرورت جب خود کی ہو تو کیسا دین، کیسا دھرم، کون سا خدا، کون لا خدا، کیسا گناہ کون سا ثواب، تب مقصد صرف ایک رہ جاتا ہے۔ اپنا مفاد۔ ہم سب ہی کہیں نہ کہیں خود سے کمزور کو استعمال کرتے ہیں، کبھی خدمت کے نام پر، کبھی رواداری کے نام پر، کبھی بھائی چارے کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر۔ ہم میں سے اکثریت نے اپنے اپنے ہوٹل کے باہر لکھوا رکھا ہے۔ رمضان میں مسیحی بھائیوں کے لئے کھانا دستیاب ہے۔ ! جے ہو بھولے ناتھ کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).