صاحب احتساب کا احتساب: پارلیمانی کمیٹی مناسب فورم ہے


نیب سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر قائم کیا جانے والا ادارہ ہے۔ اپنے قیام سے اب تک یہ ہمیشہ حکومت وقت کے دباؤ میں رہتا اور اس کے ہاتھوں استعمال ہوتا آیا ہے۔ اسے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے نومبر 1999ء میں سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ انہوں نے کنگز پارٹی قائم کرنے کے لیے اسے موثر طریقے سے استعمال کیا۔ بلیک میلنگ اور سیاسی مقدمات کی بدولت سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کر کے پی ایم ایل (این) سے پی ایم ایل (کیو) اور پی پی پی سے پیٹریاٹ نامی گروپ تخلیق کیے۔

اس ادارے کی بنیاد ہی بد نیتی اور ایک خاص ایجنڈے پر مبنی ہے۔ سیاست اور نظام مملکت سے کرپشن کا خاتمہ اس کے مقاصد میں کبھی شامل نہیں رہا۔ دنیا بھر کے جوڈیشل سسٹمز میں ملزمان کو اس وقت تک تحفظ حاصل ہوتا ہے جب تک ان کا جرم ثابت نہ ہو جائے۔ نیب قوانین کے غیر جمہوری اور ظالمانہ ہونے کا اس بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ محض شک کی بنیاد پر ہی جس شخص کو جب چاہے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ آج تک کتنے معززین کی اس وجہ سے شہرت داغدار ہوئی۔ بہت سے لوگ اس رویے سے ذہنی امراض کا شکار ہوئے اور جان سے بھی چلے گئے۔ یہاں تک کہ بوڑھے اساتذہ بھی نیب کے ہاتھوں تضحیک و رسوائی کا سامنا کر چکے ہیں۔

14۔ مئی 2006 کو لندن میں پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جسے میثاق جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں اس وقت کی فوجی حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم کے خاتمے، جمہوریت میں ریاستی اداروں کی حیثیت، آئندہ سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کے عزم کے علاوہ احتساب اور نیب کے کردار کے متعلق بھی غور و فکر کیا گیا۔

چارٹر آف ڈیمو کریسی کی سفارشات میں یہ بھی شامل تھا کہ سیاسی بنیادوں پر کام کرنے والے نیب کی جگہ ایک آزادانہ احتساب کمیشن بنایا جائے گا جس کا سربراہ وزیر اعظم اور قائدِ حزب اختلاف کے مشورے سے مقرر ہوا کرے گا۔ بعدازاں مذکورہ دونوں جماعتیں دس سال تک باری باری حکمرانی کرتی رہیں، مگر انہوں نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی دانستہ کی گئی تاکہ نیب کے طاقتور اور ظالمانہ قانون کو اپنے مخالفین کی مشکیں کسنے کے لیے برقرار رکھا جا سکے۔

تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد مگر مذکورہ دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں پر دھڑا دھڑ نیب کیسز بننا شروع ہو گئے۔ اب آصف زرداری آئے روز نیب کی پیشیاں بھگتتے ہیں۔ ان کی بہن اور جماعت کے دیگر رہنما بھی کیسز میں مطلوب ہیں۔ شہباز شریف ضمانت پر ہیں۔ حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب ان کے گھر پر ایک سے زائد مرتبہ ریڈ کر چکی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن مصائب کا شکار ہے اور اس پر آئے روز نئے نئے کیسز بن رہے ہیں۔

دوسری طرف اس تمام عرصے میں حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے پہلے سے موجود کیس میں بھی کوئی پیش رفت بالکل نظر نہیں آ رہی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ نیب پر دباؤ ہے اور وہ یہ سب حکومتی ایما پر کر رہی ہے۔ چند روز قبل سامنے آنے والے مبینہ انٹرویو میں خود چیئرمین نیب بھی یہ بات تسلیم کر چکے تھے کہ حکومت ان سے نا خوش ہے اور وہ چاہتی ہے اس کے اراکین پر موجود کیسز ختم ہو جائیں۔ اس انٹرویو کے آفٹر شاکس برقرار تھے کہ حکومتی میڈیا ایڈوائزری کونسل کے رکن کے ٹی وی چینل پر چیئرمین نیب کے خلاف جنسی ہراسانی کے اسکینڈل کی خبریں سامنے آئیں جس کے بعد نیب پر حکومتی دباؤ کے بارے میں ابہام باقی نہیں رہا۔

اگرچہ نیب کی جانب سے ان الزامات کی تردید کر دی گئی ہے۔ نیب کی وضاحت میں بتایا گیا ہے کہ الزام لگانے والی خاتون کا تعلق ایک گروہ سے ہے جو زمینوں پر قبضے، اغوا برائے تاوان اور بھتہ وصولی جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث ہے۔ تاہم چیئرمین نیب پر جنسی ہراسانی کا الزام لگنا ایک سنگین امر ہے۔ احتساب سے متعلقہ ادارے کی سربراہی پر فائز شخص کی ساکھ بہت اہم ہے اور ان پر اس قسم کے سوالیہ نشان بہت سے خدشات و تحفظات کو جنم دے سکتے ہیں۔

لہذا ایک سادہ پرچی پر لکھی گئی تردید کے بجائے معاملے کی شفاف تحقیقات ہونا ضروری ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے اس معاملے میں چونکہ پرائم منسٹر ہاؤس اور وزیراعظم عمران خان کے دوست ملوث ہیں لہذا یہ معمولی بات نہیں۔ اس کی تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی کے رول 244 کے تحت ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے، اور یہ کمیٹی ان تمام معاملات کی جانچ کرے۔ انہوں نے مزید کہا حکومت کا کمیٹی سے بھاگنا ثابت کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

حکومت کی طرف سے مگر اس اہم معاملے کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں نہ تو وزیراعظم کوئی ایکشن لے رہے ہیں اور نہ ہی نیب کی وضاحت کے بعد کسی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جبکہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے اگر اپوزیشن کو زیادہ ہی شوق ہے تو وہ سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرے۔ نیب رولز میں چیئرمین کی تقرری کا طریقہ کار تو واضح ہے مگر اسے ہٹانے کا طریقہ کار بیان نہیں کیا گیا۔ فروغ نسیم صاحب کہتے ہیں چیئرمین نیب کو ہٹانے کے لیے بھی وہی طریقہ ہو گا جو اس عہدے پر تقرری کا ہے۔

جبکہ بعض دیگر ماہرین آئین و قانون کے مطابق اعلی عدلیہ کے ججز کے لیے جو کوڈ آف کنڈکٹ ہے، وہی نیب کے چیئرمین سے متعلق ہے۔ یعنی سپریم جوڈیشل کونسل۔ یہ مگر ثانوی باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ محض الزام پر کسی بھی شخص کو عہدے سے ہٹانا واقعی مناسب نہیں۔ لیکن چیئرمین نیب کے بارے میں اپوزیشن کو بہت تحفظات رہے ہیں۔ لہذا نیب اقدامات کی صحت متنازعہ ہونے سے بچانے کے لیے اس الزام کی تحقیقات پارلیمانی فورم پر کرانا لازم ہو گا۔

ویسے بھی سپریم جوڈیشل میں دائر ہوئے ریفرنسز کے نتائج کا ریکارڈ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ماسوائے جسٹس شوکت عزیز صدیقی (اس کی وجوہات چونکہ ”ناگزیر“ تھیں ) کے کسی قابل ذکر ریفرنس کا فیصلہ کبھی نہیں ہوا۔ حکومت کا اگر دامن صاف ہے اور اس اسکینڈل میں اس کا پیچھے اس کا ہاتھ نہیں تو اسے تحقیقات کے مطالبے سے نہیں بھاگنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے فی الفور ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے جو نہ صرف اس معاملے میں دودھ اور پانی الگ کرے بلکہ نیب قوانین پر بھی ازسر نو غور کرے۔ اور حزب اختلاف کی مشاورت سے ایسی اصلاحات یقینی بنائے کہ دوبارہ نہ تو نیب کو پریشرائز کیا جا سکے اور نہ کسی کو احتساب کے عمل پر انگلی اٹھانے کا موقع مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).