میں نے ممی کی ڈائری کیوں لکھی؟


میں سمجھتی ہوں کہ مائیں ہمارے معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ ہیں جب کہ ان کو سب سے مضبوط اور مراعات یافتہ کلاس ہونا چاہیے۔ ایک ماں کے کردار، اس کے اعمال، اس کی ذہنی، جسمانی صحت اور کردار پر آپ کی اور اس زمین کی نسل تعمیر ہوتی ہے مگر معاشرے کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ شوہر سسرال سے لے کر عورت کے ننھیال اور معاشرہ تک ماں کے کاندھے پر وزن تو بے دریغ رکھتے ہیں مگر اس میں ان کو طاقت دینے، ان کا حوصلہ بننے یا ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر بالکل تیار نہیں ہوتے۔ یہ معرکہ ایک ماں کو اکثر اکیلے ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پورا معاشرہ تو ہم منٹوں میں بدل نہیں سکتے مگر ماؤں کو کچھ ایسی سبق کچھ معلومات ضرور دے سکتے ہیں جن کی وجہ سے یہ سفر ان کے لئے آسان ہو سکے۔

میں نے کوشش کی کہ میں فردا فردا ان تمام اہم امور کو زیر بحث لاؤں جن کے بارے میں ہمیں اپنے مشاہدات اور نظریات کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈائری کی شکل میں لکھنا اس لئے بھی ضروری تھا تا کہ یہ صفحات ہر ماں کے ہاتھ تک پہنچ سکیں۔ میری ٹارگٹڈ آڈینس پہلے ہی دن سے عورت اور ماں تھی۔ عام انداز کے مضامین عورتوں تک نہیں پہنچ پاتے چونکہ بحثیت ایک ممی میں خود جانتی ہوں کہ مطالعہ نہ کر سکنے کی ماؤں کے پاس بہت ٹھوس وجوہات موجود ہوتی ہیں ایسے میں ان کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ روکھے پھیکے انداز کے درسی قسم کے مضامین پڑھیں سے بہتر تھا کہ بات ان کے دل سے نکالی جائے، ان کے انداز سے نکالی جائے، سامنے ایک ممی کو بٹھایا جائے اور اس کی عام سادہ فہم انداز میں دل کی داستاں سنائی جائے۔

یہی سب سے بڑا چیلنج تھا۔ خود کو فرسٹ پرسن کے طور پر پیش کرنا اور ہر بات کو اپنے گرد گھمانا، مسائل پر سادہ انداز اور سادہ الفاظ میں بات کرنا ہی سب سے بڑی مشکل تھی جو راہ میں حائل رہی۔ بہت سے واقعات حلقہ احباب سے اٹھائے اور بہت سے اپنی زندگی سے شامل کیے۔ کچھ کرداروں کا اضافہ کیا کچھ کی کٹوتی۔ بہت سے مسائل پر بات کرنی مشکل لگی اس لئے بھی کہ کل کو میرے بچے بڑے ہو کر مجھ سے یہ نہ پوچھیں کہ یہ کیا لکھا آپ نے ہمارے نام پر۔

تو اس کے لئے یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ممی ایک کردار ہے جو اس ڈائری کی خاطر تخلیق کیا گیا۔ اور اس میں واقعات بہت سی ممیز اور ان کے بچوں کی زندگیوں سے اکٹھے کیے گئے۔ انہیں میں کچھ کہانیاں میری اپنی زندگی کی بھی ہیں۔ یہ ڈائری جھوٹ نہیں، حرف حرف سچ ہے! بس یہ کہ کرداروں کے نام و مقام بدل کر انہیں ممی کے بچوں کے روپ میں ڈھال دیا گیا ہے تا کہ اک ماں کی اصل بپتا سامنے آسکے۔ جب ہمیں ہر بات افسانوی انداز میں، استعاروں اور تلمیحات میں کہنے کی عادت ہو جاتی ہے تو یہ بھی مشکل تھا کہ ہر بات سادہ عام انداز میں کیسے کی جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بہت حد تک اس میں کامیاب رہی۔ اگرچہ ابھی بہت سے موضوعات ادھورے ہیں مگر یہی مشکل ابھی بھی آڑے آ جاتی ہے اور دوسری مشکل یہ کہ

Once a mom، always a mom!

سو بہت سے مسائل آج بھی چلتے پھرتے دماغ میں خیالات کی تشکیل تو کرتے ہیں کہ ان پر بات کرنی بہت ضروری ہے مگر ماں کی ذمہ داری اس کو تحریر میں لانے سے پہلے ہی گنوا بیٹھتی ہے۔ جب خیالات رواں ہوں تو وقت نہیں ملتا اور جب وقت ہاتھ آتا ہے تو خیالات کی آندھی ہر چیز چکنا چور کر کے جا چکی ہوتی ہے۔

ممی کی ڈائری آج سے سات آٹھ سال پہلے وجودمیں آ چکی ہوتی اگر ممی کے پاس اس کا وقت ہوتا۔ مگر اس وقت جب ممی ایک گھڑی پیمپر بدلتی تھی اور دوسرے لمحے کچن کی طرف بھاگتی تھی۔ تو ہر اس بات کو درج کرنے کا وقت نہیں تھا۔ پھر سے وہی دو راستے سامنے تھے۔ یا تو اچھی ماں بن جاؤ یا ایک اچھی ممی بلاگر۔ ایک اچھی ممی بلاگر کی پوسٹ کا مطلب آپ کے بچے کے نصیب کے بہت سے گھنٹے، اس کی بہت سی مسکراہٹیں، اور توجہ کے لمحے۔ مجھے یہ افسوس بہت ہے کہ میرے پاس کرنے والا کام بہت تھا جنہیں کرنے کی وجہ سے بچے نظر انداز ہوتے تھے مگر اس کی خوشی بھی ہے میں نے اپنے بچوں کی ہر دھڑکن کو محسوس کیا ہے، ان کی ہر مسکراہٹ میں جیا ہے اور ان کی ہر طرح کی ضرورت اپنے ہاتھ سے پوری کی ہے۔ میں نے ان کو لوریاں دی ہیں اور راتوں میں اپنے بازو پر سلایا ہے۔ بہرحال میں نے ماں بن کر اپنی تماتر صلاحیتوں اور مجبوریوں کے ساتھ ان کے لئے بہترین کوشش کی ہے۔ الحمدللہ یہی میری زندگی کا اطمینان ہے جو میرے بہت سے بچھتاوں کو رد کر دیتا ہے۔

چناچہ وہ بلاگ جس کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی آخر 2018 میں تشکیل پایا۔ اسی لئے یہ خاصا حقیقت ذدہ، تلخ، اور تھکا ہوا ہو چکا تھا مشاہدات اور اسباق سے بھرپور۔ 2011 میں لکھتی تو میں بھی وہ خوبصورت خواب لکھتی جو میری تروتازہ آنکھیں دیکھتی تھیں۔ مگر تب زندگی کو میرے ہاتھوں کی ضرورت تھی سو مجھے 2018 میں کٹھن تعبیریں لکھنی پڑیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم اپنے ماؤں کے لئے اپنے خیالات بدلیں۔ ہم نے بطور معاشرہ عادت ڈال لی ہے ہر چیز کو جذباتی کمزوری بنا کر دوسرے انسان کا استحصال کرنے کی۔

رنگ برنگے جوڑے دکھا کر لڑکیوں کو الف لیلوی کہانی کے بھیس میں شادی نام کی ایک گھمبیر ذمہ داری میں جکڑ دیا جاتا ہے اور محبت شفقت کرتے کرتے ماؤں کو کولہو کے بیل بنا دیا جاتا ہے۔ اگر خدا نے شعور دیا ہے تو اب وقت ہے زندگی کو حقائق کی نظر سے دیکھا جائے، جیسے ہیں ویسے دیکھا جائے۔ ہر چیز کی غیر ضروری مبالغہ آرائی اس سے جڑے حقائق، ضروریات اور تقاضوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ مائیں پیدا کریں باشعور اور سمجھ دار، ا ن کو بند آنکھوں سے سر کے بل مت پھنکیں کہ خود ہی سیکھ جائیں گی آہستہ آہستہ۔ ان کو شعور دیں کسی بڑی کمپنی کے ایم ڈی سے زیادہ ماہر اور معتبر کر کے۔ کہ جو کام ان کو کرنا ہے اس کے لئے بے تحاشا مہارت سمجھ بوجھ اور فراست ضروری ہے۔

ممی کی ڈائری کو شروع کرتے میں نے اسے اپنا نام نہیں دیا۔ کیونکہ اس کی شروعات میرے بلاگ صوفیہ لاگ ڈاٹ بلاگ سے ہوئی۔ میں نے چاہا کہ میری زندگی کے حالات سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بجائے خواتین اس کے پیغام پر کان دھریں۔ میں نے چاہا کہ اس سیریز کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر سمجھا جائے کہ تب ہی اس کے مقصد کی تعمیل ہوتی ہے۔ میرے نام سے چھپتی تو یہ میری تخلیق تو بن جاتی مگر شاید وہ یونیورسل پیغام نہ بن پاتی جو میں نے اس سے چاہا۔ الحمدللہ خدا نے مجھے اس میں کامیاب کیا۔

آخر میں ہم سب کی بہت شکر گزار ہوں جو میرے اس نئے اور انوکھے پراجیکٹ کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ نئے تجربات کرنے ہمیشہ مشکل ہوتے ہیں اور ہم سب نے اس تجربے میں میرا ساتھ دیا۔ پھر ثروت نجیب کی بہت زیادہ احسان مند جس نے پہلے دن سے ممی کی ڈائری کے لئے گرافکس بنا کر اس کے کرداروں میں جان بھر دی۔ ممی کی ڈائری ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ تب تک جاری رہے گی جب تک ممی کا وجود ہے۔ جب بھی اسے کوئی نیا سبق ملے گا، یہ اپنا قلم اٹھائے اسے جلد یا بدیر آپ کے سامنے رکھتی رہے گی۔ ممی کی ڈیوٹی مشکل ہے اور ہر جگہ ہر وقت حاضری اس سے بھی مشکل ہے۔ سو اگرچہ کب، کہاں اور کیسے جیسا کوئی وعدہ نہیں کر سکتی مگر جب بھی ممکن ہوا اس کے اسباق میں اصافہ ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2