عزیز ہم وطنو!


دریدہ ماضی، پشیمان حال اور غیر یقینی مستقبل۔۔۔ ہم کہاں تھے، کہاں ہیں اور کہاں کھڑے ہوں گے؟ کبھی سوچا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کی بات کرتے ہیں اور پھر ماضی کو ہی فراموش کر دیتے ہیں، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کے وعدے کرتے ہیں اور دانستہ نادانستہ غلطی در غلطی کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہم اجالوں کو فریب دینے کی روش کب چھوڑیں گے؟ سورج کو چراغ دکھاتے ہوئے بھول کیوں جاتے ہیں کہ روشنی بھی کبھی چھپی ہے؟ جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کیوں نہیں سوچتے کہ سچ لاکھ پردوں میں بھی آشکار ہو جاتا ہے۔ ماضی اس کا گواہ ہے۔

شمالی وزیرستان میں ہونے والا واقعہ افسوسناک ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ واقعہ اس لیے نہیں لکھ رہی کہ اصل حقائق ابھی تک آزاد ذرائع سے نہیں پہنچے البتہ جتنے پہنچے اُس کے مطابق ریاست کا موقف ہے کہ چند ’شرپسند‘ چیک پوسٹ پر حملہ آور ہوئے۔ دوسری طرف کا موقف ہے کہ پرامن مظاہرے پر حملہ ہوا، ایک رکن اسمبلی گرفتار اور دوسرا روپوش ہو گیا۔

جو بھی ہوا، جیسے بھی ہوا، جس نے بھی کیا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کوئی تو چاہتا تھا کہ عوام اور ادارے آمنے سامنے ہوں۔ جناب کسی کی خواہش کو خبر کس نے بنایا؟

جناب ریاست غصہ نہیں کرتی، اگر کرتی ہے تو پھر ڈانٹ ڈپٹ کر پیار سے سمجھاتی بھی ہے۔ جناب درگزر کرنا ہی بہادری ہے۔ کیا کریں یہ ملک بھی اپنا ہے، فوج بھی اور عوام بھی۔ انھیں گلے لگانے میں کیا قباحت ہے، ریاست اور عوام کے بیچ حکومت پُل کا کام کرتی ہے۔ کون سمجھائے کہ وزیراعظم اور پارلیمان اس پُل کو جوڑ کر رکھ سکتے ہیں مگر پہل کون کرے اور آگے کون بڑھے۔

عمران خان
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تاحال خارقمر کے واقعے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے

حکومت ملاحظہ کیجیے سیاسی مسائل کا حل پیش کرنے کی بجائے خاموش ہو جاتی ہے، انتظار کرتی ہے اور بالاخر اپنے جونیئر وزیر سے بیان دلوا دیتی ہے۔ کیا حکومتیں ثالث بنتی ہیں یا تماشا دیکھتی ہیں؟ وزیرستان خیبر پختونخوا کا حصہ ہے، کہاں گئے وزیراعلی اور حکومتی نمائندے؟ ہوش سے حل کرنے والے مسائل جوش سے حل نہیں ہوتے اور غداری کے سرٹیفیکٹ آخر کب تک بٹیں گے۔

مانا کہ مسائل ہیں، غیر نظر لگائے بیٹھے ہیں مگر گھر تو اپنا ہے، اس میں بسنے والے ہمارے اپنے ہیں۔ جناب ماضی میں مجیب الرحمن تب بنے جب اُن کی آواز نہ سنی گئی، اکبر بگٹی کو وہاں سے مارا گیا کہ خبر نہ ہو سکتی مگر خبر ہو گئی۔۔ بزور طاقت مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ تاریخ کا آزاد جائزہ پیش کیا جائے تو پردہ نشینوں کے نام آئیں گے جو ہمیشہ قوم کے وسیع تر مفاد میں چھپائے گئے ہیں۔

وقت بدل گیا ہے، نوجوان قیادت سیاسی نظریوں کی باگ ڈور سنبھال رہی ہے، سندھ سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے پنجاب سب ایک ہی موقف پر اکٹھے ہو رہے ہیں، آنے والے دنوں کا بیانیہ مختلف ہو سکتا ہے ایسے میں جوش نہیں ہوش سے فیصلے کرنا ہوں گے۔

ریاست کا بیانیہ مضبوط رہے اسی میں کامیابی ہے ورنہ تاریخ دہرائی گئی تو نقصان سب کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).