کیا نائن زیرو کو زیرو کر دیں؟


\"Shahzad پرانے وقتوں میں کنویں ہوا کرتے تھے لیکن کنویں کھودنے والے خال خال ہی ہوا کرتے تھے کسی گاؤں میں اگر کنواں کھودنا ہوتا تو کنواں کھودنے والوں کو ڈھونڈا جاتا تھا اور جب کوئی ملتا تو اس کی منت اور سماجت کی جاتی کہ جناب ہمارے گاؤں میں جس قدر جلدی ہو سکے تشریف لائیں کیونکہ کنواں کھودنا ایک طویل اور صبر آزما کام ہوا کرتا تھا۔ اب جس دن کنواں کھودنے والا آتا اس گاؤں میں کنواں کھودنے کی رسم بسم اللہ ہوا کرتی تھی۔ کنواں کھودنے والا گاؤں کی مخلتف جگہوں کو دیکھتا پانی کی گہرائی کا اندازہ لگاتا اور پھر کسی مخصوص مقام کو نشان لگا کر کہہ دیتا کہ یہاں کنواں کھودنا چاہئے۔ اب اس کے ساتھ آئے مزدوروں کی باری ہوتی وہ کدال سے کھدائی کرتے اور کرتے جاتے۔ جب نیچے سے نرم اور نمدار مٹی نکلنا شروع ہوتی تو پھر مچان بچھانے کی رسم ہوتی جس کے بعد مستری کنویں کی دیواریں اینٹوں سے مضبوط کرتے پھر ڈول کے ذریعے پانی نکالا جاتا اور جب مٹیالے اور کھارے پانی کے بعد میٹھا پانی نکلتا تو ہر چہرہ کھل اٹھتا اور گاؤں والے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے، مٹھائی اور شیرینی تقسیم کرتے جس سے ساتھ والے گاؤں والوں کو بھی پتہ چل جاتا کہ ہمسائے میں کنواں کھد گیا ہے۔ اب ان کی عورتوں کو کوسوں دور نہیں جانا پڑے گا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے کہ تیس بتیس سال بعد ایک دن اچانک کنویں میں ایک ناپاک جانور گر جاتا ہے جس پر ہر طرف شور اٹھتا ہے کنواں ناپاک ہو گیا، کنواں پلید ہو گیا۔ کنویں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا نیا کنواں کھودنا پڑے گا تب تک گاؤں والیوں کو منہ اندھیرے پانی بھرنے دوسرے گاؤں جانا پڑے گا لیکن پھر گاؤں کے ایک بزرگ نے بتایا کہ ہماری خواتین کو پانی کے لئے کسی دوسرے گاؤں جانا پڑے گا نہ نیا کنواں بنانے کی کوئی ضرورت ہے کنویں سے ناپاک جانور کو نکالو اور پھر اتنے ڈول پانی کے بھی، اور بس، ناپاک کنواں پاک ہو جائے گا۔

میر ی اس طویل تمہید کی وجہ ایم کیو ایم ہے جو پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس پارٹی کی قومی اسمبلی میں 24 سینیٹ میں 8 اور سندھ اسمبلی میں 50 نشستیں ہیں لیکن متحدہ کے قائد نے پیر 22 اگست کی تقریر میں پاکستان اور پاکستان کے سلامتی کے اداروں کے متعلق جو کچھ کہا وہ کچھ نیا نہیں تھا۔ 2004 میں ہندوستان ٹائمز کے زیر اہتمام لیڈر شپ کانفرنس نئی دہلی میں ہوئی جس میں ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی تقریر میں برصغیر کی تقسیم کو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان، نظریہ پاکستان اور اکابرین پاکستان کی بھی نفی کی۔ اس کے بعد وہ لندن میں بیٹھ کر تواتر سے پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو نشانہ بناتے رہے جس پر موجودہ دور میں عدالت نے ان کی تقریر، تصویر اور بیان نشر اور شائع کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس کے باوجود موصوف اپنی زبان کی تالہ بندی کو تیار نہیں اور وقتاً فوقتاً کارکنوں سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے رہتے ہیں۔ لیکن 22 اگست کو انہوں نے جس طرح \’\’رسم بسم اللہ \’\’ ادا کی اور اپنے کارکنوں کو میڈیا ہاؤسز پر حملےکے لیے اکسایا جس کے بعد جو ہوا دنیا نے دیکھا وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ اس تمام صورت حال میں ایم کیو ایم کے نمبر ٹو ڈاکٹر فاروق ستار جو انتہائی زیرک ،معاملہ فہم اور جہاندیدہ سیاست دان ہیں مجبور ہوئے کہ پریس کانفرنس کرکے اپنے قائد کے حالیہ بیان سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور بقول فاروق ستار وہ پیر کی شب کراچی پریس کلب اسی لئے گئے تھے لیکن رینجرز نےانہیں پریس کانفرنس کرنے نہیں دی اور زبردستی ساتھ لے گئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار، خواجہ اظہار الحسن اور ڈاکٹر عامر لیاقت کو اگلی صبح چھوڑا گیا۔ 23 اگست کی شام فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور انتہائی جمہوریہ رویہ اپناتے ہوئے ناصرف قائد کے بیان سےلاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان اب پاکستان سے ہی آپریٹ ہوا کرے گی۔ فاروق ستار کا اپنے قائد سے 32 سال کی سیاسی رفاقت میں یہ کہنا بڑی بات ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کے قائد ماضی میں ون ٹو تھری کہہ کر کراچی بند کر دیا کرتے تھے، جو مخالفین کو بوری میں بند کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور بھارت سے مداخلت کی اپیل کیا کرتے تھے، ان کے بھاری بھرکم سیاسی وجود سے یک لخت لاتعلقی کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی 23 اگست کی تاریخی پریس کانفرنس نے ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم پی (پاکستان ) ایم کیو ایم ایل( لندن ) میں تقسیم کر دیا ہے جو پاکستان میں موجود ان کے ساتھی رہنما اور کارکن بھی چاہتے تھے کیونکہ قائد کے بیانات کی صفائیاں دیتے دیتے دیتے وہ تھک گئے تھے۔ جب کہ ان کے یہی اشتعال انگیز بیانات پاک سر زمین پارٹی کے قیام کی وجہ بھی بنی اور نظریاتی اختلاف کے باعث تو ایم کیو ایم حقیقی کی بہت پہلے ہی داغ بیل ڈل گئی تھی۔ ویسے بھی پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں۔ مسلم لیگ تقسیم در تقسیم ہوتی آ رہی ہے اور ڈھاکہ جہاں اس کی تشکیل ہوئی وہاں اب اس کا وجود ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام میں بھی نظریاتی اور حقیقی تقسیم دیکھی جا سکتی ہے۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب بعض جذباتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگنی چاہئے، نائن زیرو کو زیرو کر دیا جائے، اس کو سیل ہی رہنا چاہئے، وغیرہ۔ جناب کیوں زیرو کر دیں اور کیوں پابندی لگائیں؟ کیا جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگنے سے یہ جماعتیں ختم ہو گئی تھیں یا ان کی قیادت ختم ہو گئی تھی۔ ایم کیو ایم کے پاس بڑا ووٹ بینک ہے، وہ سندھ کے شہری حلقوں کی مقبول جماعت ہے۔ اس میں پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہیں، سختیاں اور مشکلات جھیلی ہیں اور جھیل رہے ہیں، ایسے میں ریاست کا کوئی قانون اس پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ جمہوریت میں آمرانہ روئیے نہیں چلتے اور نہ سیاسی بت پرستی ہوتی ہے۔ جمہوریت کے تو مطلب ہی برداشت کے ہیں، ہاں اگر کوئی جمہور کے عمومی مزاج کے خلاف بات کرے تو جمہوری طریقے سے ہی پانی کا ڈول نکال لینا چاہئے، کنواں خود بخود پاک ہو جائے گا۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments