سیرت النبی ﷺکی روشنی میں امن ِ عالم


یوں تو آج کے دور میں انسان کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی امن کا فقدان انہی میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ لسانی، ثقافتی، مذہبی تعصب، تنگ نظری اور نفرت نے انسان کو انسان کا دشمن بنا دیا ہے۔ عالمی امن کے ادارے بشمول اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ ہر طرف جنگ و فساد کا عالم ہے۔ ایسی صورتحال سے نجات کا ذریعہ صرف اور صرف سیرت النبیؐ میں ہی مضمر ہے۔

حضور ؐ کا طرز عمل اور آپؐ کے ارشادات آج کے دور میں امن کے بارے میں بہترین رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ مکہ کے تیرہ برس پر امن جدوجہد کا دور تھا۔ تکالیف، اذیتیں، تحقیر و تذلیل حتی کہ بعض ساتھیوں کا قتل بھی اس پر امن جدوجہد کو تصادم کی راہ پر نہ چلا سکا آپؐ کی ساری حیات مبارکہ امن سے عبارت ہے۔ خواہ وہ میثاق مدینہ ہو، صلح حدیبہ ہو، فتح مکہ ہو یا غزوات۔

آج امن عالم کی تباہی کے بڑے اسباب معاشی تقسیم، مذہبی رواداری کا نہ ہونا، عدم مساوات، عدل و انصاف کا فقدان، غیر ضروری جنگہیں ہیں۔ یقین جانیے آج سے چودہ سو سال قبل کا معاشرہ بھی انہی مسائل کا شکار تھا۔

محسن انسانیت حضرت محمد ؐ کی بعثت کے وقت معاشرے میں امیر و غریب کا فرق نمایا ں تھا۔ اور اسی معاشی طبقہ و اریت نے معاشرے کے امن کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔ اس معاشرے میں رسول خدا نے ایسے معاشی اصول وضع کیے کہ امن عالم قائم ہو گیا آپ ؐ نے یہود بنی امیر سے حاصل ہونے والا مال پورے کا پورا ضرورت مند مہاجرین اور انصار میں تقسیم کر دیا پہلی اسلام ریاست مدینہ میں حضور پاک ؐ نے مال غنیمت کا بیس فیصد حصہ خزانے کے لیے مخصوص ٹھہرایا اگر آج سیرت النبیؐ کی روشنی میں معاشی توازن قائم کر لیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

آپؐ کی بعثت کے وقت مختلف قوموں کے افراد کے اندر مذہبی رواداری نہیں تھی ایک مذہب اپنے اندر دوسرے مذاہب کے افراد کے لیے گنجائش نہ رکھتا تھا۔ مگر نبی کریمؐ نے ”لا ا کراہ فی الدین“ دین میں کوئی جبر نہیں کے اصول کے تحت ہمیشہ رواداری کا مظاہرہ کیا۔ آپؐ نے بتو ں کو برا بھلا کہنے سے بھی منع فرمایا کہ کہیں مشرکین نا سمجھی کی وجہ سے رب العزت کی شان میں گستاخی نہ کر بیٹھیں۔ آج دنیا میں امن و امان کی تباہی کا سب سے بڑا سبب مذہبی رواداری کی عدم موجودگی ہے۔ اور اس کا حل صرف اور صرف سیرت طیبہ میں پوشیدہ ہے۔

آج دنیا عدم مساوات کا شکار ہے نبوت کے وقت بھی پورے عالم میں کسی نہ کسی طرح ایک ہی آدم و حوا کی اولاد کو مختلف درجات میں تقسیم کرکے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، اگر مفتوح آبادی کا کوئی فرد فاتح طبقے کے کسی شخص کو چھو لیتا تو اُس کو مذہباً ناپاک خیال کیا جاتا معاشرے کے تمام افراد مختلف طبقات میں تقسیم تھے۔ یہاں تک ہی نہیں بلکہ مردو زن کے درمیان بھی عدم مساوات تھی۔ ایسے معاشرے میں نبی اکرم حضرت محمد ؐ نے مساوات کی ایسی مثال قائم کی کہ حبشی غلام ”یا سیدی“ کہہ کر پکارا گیا۔

موجودہ زمانے میں عدل و انصاف اس عالم کے لیے پریشانی بنا ہو اہے ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف میں وہی تفریق ہے جو کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوتی تھی اور اس تفریق کو نبی پاک ؐ نے یہ کہہ کر ختم کر ڈالا تھا خدا کی قسم اگر محمد ؐ کی بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ اگر آج کے منصف اُس ذات اقدس ؐ کیتعلیمات کو سامنے رکھ کر فیصلے کریں تو دنیا میں عدل و انصاف کی تفریق ختم ہو جائے۔

آپ جس طرف بھی نظر دوڑائیں گئے آپ کو جنگ کا منظر ہی نظر آئے گا ہر طاقتور ملک اپنی اجاراداری کی خاطر کمزور ملک پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہے حضور اکرم ؐ کی بعثت سے پہلے بھی ریاست کو فتح کرنے کے لیے جنگ کا سہارا لیا جاتا تھا مگر رحمتہ اللعالمین ؐ نے جنگ کی بجائے صلح پر زور دیا۔

رسول خدا ؐ کی تعلیمات دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ لیکن افسوس، صدا فسوس! آج ہم تعلیمات نبوی ؐ بھولا چکے ہیں اور پھر سے اسی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں 1400 سال قبل تھے۔ آج ہماری دنیا کا امن تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ آج اگر ہم اس دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنانا جاتے ہیں تو ہمیں تعلیمات نبویؐ پر عمل پیرا ہونا ہو گا اور ہم مسلمانوں پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ اسلام امن و آشتی کا دین ہے اوررحمت اللعالمینﷺ کسی خاص فرقے یا جماعت کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تشریف لائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی اکرم ؐ کی تعلیمات کی روشنی میں اس کرہ ارض پر امن قائم کرنے کی توفیق دے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).