کاش


بچپن سے پڑھا اور سنا ہے، کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ زمین پر انسان کا مقام اللہ تعالیٰ کے نائب کا ہے۔ مگر بصد افسوس کہ حضرت انسان نے اپنے عہدے کا پاس نہ رکھا، اور وہ کام کرنے شروع کر دیے جو اسے جانوروں سے بھی بد تر بنا دیتے ہیں۔ ہمار ا پیارا ملک پاکستان ہمارے بڑوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ پاکستان کا نام رکھنے والے رحمت علی نے بڑی محبت اور عقیدت سے اس کا کا نام پاکستان رکھا تھا۔ یعنی پاک لوگوں کے ر ہنے کی جگہ۔

مگر پاکستان بننے سے لے کرآج تک ہم نے اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ قائد اعظم کی وفات ہو، یا لیاقت علی خان کوشہید کرنا۔ حکیم سعید کی شہادت ہو یا مولانا سمیع الحق کی شہادت۔ آج تک کتنے ہی محب وطن لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نہ ان کے قاتلوں کا کچھ پتہ چلا اور نہ ہی ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکی۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت انسان نے حکومت کے لالچ میں کیا کچھ نہیں کیا۔ سگے رشتہ داروں نے ایک دوسرے کا خون تخت حاصل کرنے کے لیے بہا دیا۔ یہی سب کچھ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بھی ہوتا رہا ہے۔

حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے کا خون تک کرتے رہے ہیں ہم۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جو کافی طوالت کا متقاضی ہے۔

آج جس موضوع پر میں نے قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے وہ اسلام آباد میں ہونے والا حالیہ ایک اندوہناک واقعہ ہے۔ فرشتہ نامی معصوم سی بچی کے درندگی بھرے سلوک نے اہل دل کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا۔ زیادتی در زیادتی کرتے ہوئے پولیس نے بھی اپنا کردار خوب نبھایا اور لواحقین کو حسب ِ توفیق ذلیل کیا۔ پانچ دن تک نہ صرف ایف۔ آئی۔ آر درج نہیں کی گئی بلکہ رپورٹ درج کروانے کے لیے آنے والے بھائی کو اس کی بہن پر غلیظ الزامات لگا کر ملکی اداروں سے نفرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس ملک خداداد میں۔ تقریباً سارے ہی واقعات میں پولیس کا کردار بڑا مذموم رہا ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پولیس عوام کی حفاظت کے لیے رکھی ہے یا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے۔ جب میڈیا میں ایسے واقعات کا شور مچتا ہے توحکومتی مشینری طوعاً و کرہاً حرکت میں آتی ہے اور چند پولیس اہل کاروں کو معطل کر دیتی ہے۔ لواحقین کو چند لاکھ روپے کا لالی پاپ دے دیا جاتا ہے۔ عوام کا غصہ ٹھنڈا ہونے پر وہی اہل کار دوبارہ بحال ہو جاتے ہیں۔ کیس کی فائل بند کر دی جاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد جب پھر سے کسی معصوم کی زندگی برباد کر دی جاتی ہے۔ پھر سے وہی ڈرامہ شروع۔

ہمارے معاشرے میں کئی عناصر ایسے ہوتے ہیں جو اس قسم کے کیس میں ملزموں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر ملزموں کا تعلق کسی ادارے سے ہو تو پورا دارہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ملزم تفتیش کے بعد عدالت میں پیش بھی کر دیا جائے تو ہمارا ٹوٹا پھوٹا، شاہی عدالتی نظام انصاف فراہم نہیں کر سکتا۔ جن کو مل بھی جائے اتنا دیر سے ملتا ہے کہ انصاف خود شرمندہ ہوتا ہے۔ اور اس دیر کے دوران لواحقین کو جس اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ الگ۔

کہتے ہیں کہ افغانستان کے بادشاہ سردار داؤد کو اطلاع ملی کہ کابل میں تانگے کا کرایہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ سردار داؤد نے فوراً عام لباس پہنا اور بھیس بدل کر ایک کوچوان کے پاس پہنچ کرپوچھا کہ ”محترم پل چرخی (افغانستان کے ایک مشہور علاقے کا نام) تک کتنا کرایہ لو گے؟

کوچوان نے سردار داؤد کو پہچانے بغیر جوادب دیا کہ ”میں سرکاری نرخ پر کام نہیں کرتا“۔

داؤد خان: 20؟

کوچوان: اور اوپر جاؤ

داؤد خان: 25؟

کوچوان: اور اوپر جاؤ

داؤد خان 30؟

کوچوان : اور اوپر جاؤ

داؤد خان: 35؟

کوچوان: مارو تالی۔

داؤد خان تانگے میں سوار ہو گیا۔ تانگے والے نے داؤد خان سے راستے میں پوچھا تم فوجی ہو؟

داؤد خان : اور اوپر جاؤ۔

کوچوان: اشتہاری ہو؟

داؤد خان: اور اوپر جاؤ

کوچوان: جنرل ہو؟

داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔

کوچوان: مارشل ہو؟

داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔

کوچوان: کہیں داؤد خان تو نہیں؟

داؤد خان : مارو تالی

کوچوان کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے داؤد خان سے کہا کہ مجھے جیل بھیجو گے؟

داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔

کوچوان: جلا وطن کرو گے؟

داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔

کوچوان: پھانسی پر چڑھاؤ گے؟

داؤد خان: مارو تالی۔

کاش ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسا حکمران آ جائے تو رعایا کا خیال اسی طرح رکھے۔

کاش: ہم لوگ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک سکیں۔

کاش: ہم لوگ ایک دوسرے کا اپنی طرح خیال رکھیں۔

کاش: ہم لوگ اس پرانے دور میں چلے جائیں جب پورے محلے کے لوگ ایک دوسرے کے بہن بھائی ہوتے تھے۔ جب منہ بولے رشتوں کا لحاظ بھی خون کے رشتوں جتنا کیا جاتا تھا۔

کاش: ہم اسلام سے اتنا دور نہ جاتے

کاش: اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک اسلام کو مکمل طور پر نافذ کر سکتا۔

کاش! کاش! ۔

ایسے واقعات کی وجوہات اور تدارک پر بھی لکھنے کی کوشش کروں گا۔ آخر میں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

عمر حیات عبیداللہ
Latest posts by عمر حیات عبیداللہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).