ممٹی کا بھوت اور ننھی عفرا


لُو کے تھپیڑوں سے سُرخ تپتی دوپہروں میں جب عفرا اور اُسکے بہن بھائیوں کو تھپک تھپک کر سُلانے کی کوشش کرتی اُنکی ماں جب خود تھک ہار کر سو جاتی تو چند ہی لمحوں بعد وہ سب بہن بھائی چُپکے سے ٹھنڈے کمرے سے نکل چھت پر بنی دھوپ سے چمکتی ممٹی پر جا کر کھیل کود میں مشغول ہو جاتے۔ معصوم کلکاریاں موسم کی حدت سے بے خبر ہو کر آسمان کو چھونے لگتیں۔ زندگی اس سے زیادہ حسین ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ پھر ایک دن جانے ایسا کیا ہوا کہ کہ عفرا ممٹی پر جانے سے گھبرانے لگی۔

اُس نے دوپہر کو بھی ماں سے لپٹ کر سونا شروع کر دیا۔ گرمی کی شدت سے گھبرائی اُسکی ماں بہتیرا کوشش کرتی کہ عفرا دُور ہو کر سوئے لیکن عفرا تو مانو بندر کے نوزائیدہ بچے کی مانند اور بھی چمٹتی جاتی۔ ساری دوپہر خوف سے لرزتی عفرا شام ہوتے ہی بالکل نارمل ہو جاتی۔ وہ کسی کو بھی نہ بتا سکی کہ کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ اتنا ڈرنے لگی۔ اُسکے بہن بھائی اُسکے تھر تھر کانپنے کا مذق اُڑاتے لیکن کسی نے بھی وجہ جاننے کی کوشش نہ کی۔

ایک ہفتہ قبل سب بچے جب دوپہر میں ممٹی پر تھے جب اُنکی ہنسی کی آواز سُن کر ساتھ والے گھر سے اُنکا چچا زاد بھائی سُہیل وہاں آن پہنچا۔ سترہ سالہ سُہیل پڑھائی کب کی چھوڑ چُکا تھا اور اب ایسے ہی سارا دن گھر پر لیٹا بستر توڑتا۔ عفرا نے ایک نظر سُہیل کو دیکھا اور پھر سے اپنی کتابوں میں سر دے لیا۔ وہ شاذونادر ہی کسی کھیل میں حصہ لیتی تھی اُسکی ساری تفریح کتابوں سے شروع ہو کر کتابوں پر ہی ختم ہوتی۔ ابھی بھی وہ اُردو کی کتاب کھولے بیٹھی تھی جب سُہیل برابر میں آ کر بیٹھ گیا۔ نو سالہ عفرا کی اُردو اتنی اچھی نہ تھی اس لیے وہ گاہے بگاہے اپنی بڑی بہن سے مشکل الفاظ پوچھتی جا رہی تھی۔ جب تیسری بار عفرا نے اپنی بہن کو مدد کے لیے آواز لگائی تو اُس نے ان سُنی کر دی۔ بیچارگی سے ادھر اُدھر دیکھتی عفرا نے سُہیل سے ہی مدد مانگ لی۔

گھٹنوں تک آتی فراک میں ملبوس دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی عفرا چاہتی تھی کہ کتاب سہیل کے ہاتھ میں پکڑا دے تاکہ وہ اُسے ہجے کر کے بتا سکے جب سُہیل نے اُسکی گود میں دھری کتاب کے الفاظ پر اُنگلی پھیرنا شروع کر دی۔ عفرا کے کان ہجوں کے منتظر تھے جب ایک سرد سی لہر اُسکی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اس احساس کو نام بھی نہیں دے پارہی تھی۔ جانتی تھی تو صرف اتنا کہ کتاب کی سرحد کب کی ختم ہو چکی ہے اور سہیل کی انگلیا ں اب اُسکی ٹانگوں پر رینگ رہی تھیں۔

پہلے عفرا کو لگا کہ ایسا غلطی سے ہوا ہے لیکن جب وُہی ہاتھ اُسکی گود میں موجود کتاب کے نیچے سرکنے لگا تو وہ گھبرا گئی۔ اُس نے سٹپٹا کر سہیل کی جانب دیکھا جو اپنی حرکتوں سے انجان بنا باقی بچوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔ عفرا پنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اُن نو عمر لیکن مضبوط ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تب ہی عفرا کا بھائی اچانک اُس جانب آ گیا اور سہیل نے اپنا ہاتھ فوری طور پر کتاب کے اوپر رکھ لیا۔ عفرا کے لیے اتنی مہلت ہی بہت تھی وہ اُٹھی اور سر پٹ نیچے کی جانب دوڑ گئی۔ اُس دن کے بعد سے ممٹی والا بھوت اُسکے اعصابوں پر سوار ہو گیا۔

یونہی کافی دن گزر گئے اور عفرا کے کمسن دماغ سے یہ واقعہ محو ہونے ہی والا تھا جب ویسی ہی ایک دوپہر اُسکی ماں کو کسی کام سے بازار جانا پڑ گیا۔ جانے سے پہلے وہ ہر دلعزیز سہیل کو بچوں کا خیال رکھنے کا کہہ گئی۔ اب وہی جُھلستی دوپہر تھی اور گھر میں موجود واحد حفاظتی حصار بھی نہ تھا اور سب سے بڑھ کر ممٹی والا بھوت نیچے اُتر کر پورے گھر میں دندنا رہا تھا۔ عفرا پیلا پھٹک چہرہ لیے اپنے بہن بھائیوں کو دیکھ رہی تھی جن کو یہ بھوت نظر ہی نہ آرہا تھا۔

”چلو چُھپن چُھپائی کھیلتے ہیں“ سُہیل کے کہنے پر عفرا کی ٹانگیں باقاعدہ کانپنے لگیں۔ ”تم لوگ چھُپو میں اور عفرا تم سب کو تلاش کرتے ہیں“۔ عفرا اس قدر گھبرائی کہ اُسکے بولنے سے قبل ہی سب بچے گھر کے کونوں کھدروں میں چُپنے کے لیے بھاگ گئے۔ ”پورے سو تک گنتی کر کے آئیں گے ہم اچھے سے چُھپنا“۔ گنتی گنتا ہوا بھوت عفرا کی طرف بڑھنے لگا۔ اپنی پسندیدہ فراک میں ملبوس عفرا نے گھٹنوں کو جوڑ کر پوری طرح اُس میں چُھپنے کی کوشش کی تبھی وہ بھوت صوفے کے بالکل پاس آکر زمین پر بیٹھ گیا۔

خوف سے گنگ عفرا کی آنکھوں کی پتلیاں پوری طرح پھیل چُکی تھیں۔ گھٹی گھٹی چیخیں مارتی وہ ان ہاتھوں کو پیچھے ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جو اُسکی فراک کو اوپر کر اُسکے گھٹنوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ عفرا کے دونوں ہاتھوں کو ایک ہاتھ میں سختی سے جکڑ کر سہیل نے ایک ہاتھ کی انگلی اپنے لبوں پر رکھ کر عفرا کو چُپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے زور سے اُنچاس کہا پچاس کی نوبت آنے سے پہلے ہی باہر کا دروازہ زور زور سے دھڑدھڑایا اور بھوت اتنا گھبرایا کہ کمرے سے بھاگ گیا۔ عفرا کی ماں آگئی تھی اور حیران تھی کہ چنگی بھلی عفرا کو اتنا تیز بُخار کیسے ہو گیا۔

اور پھر یہ جیسے معمول بن گیا۔ رات کو معذور دادی کی رضائی میں بھی عفرا کو گوشہ عافیت میسر نہ ہوتا۔ بھوت اس رضائی میں بھی دادی کی ٹانگیں دبانے کے بہانے آن گھستا، ٹٹول ٹٹول کر عفرا کے دونوں پاؤں جکڑ لیتا اور سرسراتی ہوئی غلیظ اُنگلیوں کا لمس کہاں کہاں تک جاتا عفرا نے حساب لگانا چھوڑ دیا۔ کم گو وہ پہلے ہی تھی اب بالکل ہی کتابوں میں گُھس گئی۔ وہ جانتی تک نہ تھی کہ ایسے میں اُسے کیا کرنا چاہیے۔ کیا اُسے اپنی ماں، بہن یا کسی سہیلی کو بتانا چاہیے؟

لیکن اگر اُنہوں نے اُسے کوئی گندی لڑکی سمجھ لیا تو اُسکے ساتھ کون دوستی کرے گا؟ ساتھ والوں کی لڑکی کو سب گندی لڑکی کہتے تھے کیونکہ وہ لڑکوں سے باتیں کرتی تھی تو اُسکے باپ نے اُسے کالج سے ہٹا لیا اب اگر عفرا بتاتی کہ سُہیل اُسے کس طرح ہاتھ لگاتا ہے تو کہیں اُسکا بھی سکول جانا بند نہ ہو جائے۔ اُسے سہیلیاں بنانا پسند تھا سکول جانا تو ازحد پسند تھا۔ بس یہ وہ سرحد تھی جہان جا کر عفرا کی سوچوں کو ایسے بریک لگتے جیسے سلائی مشین کی سوئی کا ناکہ ٹوٹ گیا ہو۔

تبھی ایک معجزہ ہوا اور سہیل کا ماموں اُسے اپنے ساتھ سعودیہ لے گیا۔ لیکن عفرا کا خوف کبھی ختم نہ ہوا۔ وہ اکیلی ایک پل بھی نہیں رہ سکتی تھی لازم تھا کہ ہر وقت اُسکے ساتھ کوئی موجود ہو ورنہ جیسے اُسکی سانس رُکنے لگتی۔ یہ خوف زندگی بھر رُخصت نہ ہونے کے لیے اُس پر مسلط ہو چُکا تھا۔ وہ نیند میں بے تحا شا ڈرنے اور بڑبڑانے لگی تھی۔ دھیرے دھیرے وقت گزرنے لگا اور عفرا نے گھر والوں سے دور کتابوں اور اپنی دوستوں میں پناہ تلاش کر لی۔

سہیل کو گئے چھ ماہ ہو چُکے تھے جب ایک دن بازار سے واپسی پر عفرا کا ہاتھ تھامے اُسکی ماں اُسے چچی کے گھر لے آئی۔ سُہیل کی واپسی سے بے خبر اُسکی ماں گیٹ پر ہی اپنی دیورانی سے باتوں میں مشغول ہو گئی اور عفرا اندر چلی آئی۔ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے عفرا کو 2 منٹ ہی گُزرے تھے جب اُسکی نظر دروازے سے اندر آتے سہیل پر پڑی۔ تھر تھر کانپتی عفرا اُٹھ کھڑی ہوئی قریب تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ جاتی جب زقند بھرتا سہیل اس کے سامنے آ کر رُک گیا۔

اُس نے اپنے ہاتھ یوں آگے بڑھائے جیسے کبھی یہاں سے گیا ہی نہیں تھا۔ اُن آنکھوں کی شیطانیت ان چھ ماہ میں اور بڑھ چکی تھی اور وہ ہاتھ زیادہ مضبوط اور کھُردرے ہو چُکے تھے۔ عفرا نے آنکھیں بند کر لیں اور اُس میں جانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی کہ اپنی مُٹھیوں کو بھینچتی اُس نے فلک شگاف چیخ ماری اور پھر رُکی نہیں اُسکی چیخوں سے جیسے اُسکے اپنے کان کے پردے پھٹنے ہی والے تھے جب کسی نے اُسے زور زور سے جھنجھوڑنا شروع کر دیا۔ اُس نے دیکھا کہ اُسکی ماں اور چچی پریشان چہرے لیے سامنے کھڑی اُس سے سوال و جواب کر رہی تھیں۔ لیکن عفرا اب زور زور سے ہنس رہی تھی ممٹی والے بھوت کو بھگانے کا نُسخہ اُسے مل چُکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).